کپتان خطرناک ہوا تو اس کا اگلا ٹھکانہ کون سی جیل ہو گی؟
وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کی کشتی کو ڈولتا دیکھ کر کچھ عرصہ پہلے اپنی پوزیشن بدلنے والے سینئر اینکر پرسن کامران خان اب پھر سے اپنا کپتان مخالف موقف بدلتے ہوئے حکومتی کیمپ کی جانب لوٹنا شروع ہو گے ہیں۔
جہانگیر خان ترین کے بیرون ملک چلے جانے اور وزیراعظم کی گجرات کے چوہدریوں سے ملاقات کے بعد کامران خان نے کہا ہے کہ عمران خان کو فوری طور پر رائٹ آف کر دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ کھیل ابھی باقی ہے، اور ختم نہیں ہوا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری بیان میں کامران خان نے لکھا کہ گذشتہ روز اچانک وزیر اعظم عمران خان کی گرتی مقبولیت کو سہارا مل گیا ہے۔
کامران کا کہنا تھا کہ سیاسی منظرنامے پر عمران خان کی بھر پور واپسی ہو گئی ہے۔ بجلی کے بلوں، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی وغیرہ عوام کے لئے بہترین خبریں ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کے لئے آخری موقع ہے کہ عوام سے تبدیلی لانے کا وعدہ پورا کریں۔
کامران نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ عمران خان نے مہنگائی کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے اور پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کر کے ماہرین کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ وہی کامران خان ہیں جو کئی ماہ سے عمران خان کی کارکردگی پر شدید تنقید کر رہے تھے اور اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد اس تنقید میں تیزی آ گئی تھی۔
گذشتہ ماہ عمران خان نے بہترین کارکردگی پر وزرا میں انعامات تقسیم کیے تو انہوں نے بمشکل اپنے پروگرام میں مراد سعید کو ملنے والے پہلے انعام پر دی گئی توجیہہ پر اپنی ہنسی روکی تھی۔
پھر وزیر اعظم روس کے دورے پر گئے تو کامران نے اس کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان کو نقصان ہونے کا احتمال ہے کیونکہ ہم ایک غلط موقع پر غلط جگہ کھڑے ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن اب بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کو جج کرنے کے بعد کامران خان اپنے پرانے کپتان نواز موقف کی جانب لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔
کہنے وال کہتے ہیں کہ کامران خان اپنا سیاسی قبلہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ٹمپریچر دیکھ کر متعین کرتے ہیں؟ تو کیا کامران کے بدلتے ہوئے موقف کا مطلب یہ ہوا کہ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ دوبارہ وزیراعظم کی پشت پر آن کھڑی ہوئی ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے عمومی تاثر یہی تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا اعلان طاقتور حلقوں کے ایما پر کیا گیا تھا جو اب کپتان سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا دارومدار عمران خان کی جماعت میں موجود پرو اسٹیبلشمنٹ اور عمران مخالف جہانگیر ترین خان کے دھڑے پر تھا۔
یہ خیال کیا جارہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد ترین کا پی ٹی آئی میں موجود دھڑا حکومتی جماعت سے علیحدہ ہو جائے گا جس کے بعد قاف لیگ اور ایم کیو ایم جیسی جماعتیں بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں گی۔ تاہم جہانگیرترین کوئی سیاسی پوزیشن لینے کی بجائے علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوگئے اور عمران خان چوہدریوں کو منانے ان کے گھر جا پہنچے۔
PTI news in urdu video
یوں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید اپوزیشن جماعتیں جہانگیر ترین دھڑے کی حمایت حاصل کرنے اور ان کے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکامی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کامران خان نے بھی اپنا کپتان مخالف موقف بدلتے ہوئے دوبارہ سے ان کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیئے ہیں۔ تاہم کامران خان کے اپنے الفاظ میں کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔
کرونا کے 476 مریضوں کا اندراج، 719 شفایاب
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا چکی ہوتی تو انہیں گجرات کے چوہدریوں کے گھر جانے کی زحمت گوارہ نہ کرنا پڑتی۔ اب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ ایک اور ترلہ منت سیشن کرنے کے لئے ایم کیو ایم پاکستان کے کراچی ہیڈ کوارٹرز جانے والے ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات ابھی جوں کے توں ہیں اور دونوں میں تناؤ برقرار ہے کیونکہ وزیراعظم توسیع نہ دینے نے پر ڈٹ چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اپوزیشن کو توسیع کی خاطر آگے لگایا گیا ہے۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ پچھلے ہفتے وزیر اعظم نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف جاری سازش میں اپوزیشن کی حصہ دار بنی ہوئی ہے اور اگر ایسا کرنے والے عناصر باز نہ آئے تو میں آخری حد تک چلا جاؤں گا۔
پھر ایسی اطلاعات بھی آنا شروع ہو گئی تھیں کہ شاید وزیراعظم وقت سے پہلے ہی نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کر دیں۔ انہیں افواہوں کے درمیان وزیراعظم اور آرمی چیف کی ایک ملاقات بھی ہوئی، لہذا تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے باوجود فوجی اسٹیبلشمنٹ کھل کر سامنے نہیں آئی تو اس کی بنیادی وجہ عمران خان کے خطرناک ہو جانے کا خوف ہے لہذا فوجی قیادت دفاعی پوزیشن میں ہے اور کھل کر نہیں کھیل پا رہی۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف کپتان ہی خطرناک نہیں ہو سکتے بلکہ چیف بھی خطرناک ہو سکتا ہے، انکا کہنا ہے کہ کپتان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے کندھوں پر بٹھا کر کپتان کو اقتدار میں لانے والی فوجی قیادت وزیراعظم کے آئینی اختیارات کی بندوق تلے زیادہ عرصہ سہم کر نہیں بیٹھے گی اور اگر انہوں نے خطرناک ہونے کی کوشش کی تو ان کا اگلا ٹھکانہ بلوچستان کی بدنام زمانہ مچھ جیل بھی ہو سکتی ہے۔