معاشی شرح نمو 0.4 فیصد، کرونا سے 3ہزارارب کا نقصان ہوا

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔
اسلام آباد میں اقتصادی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری 2 سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درآمدات، برآمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25 ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریباً 30 ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکے تھے۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کررہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کررہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریں۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور مؤخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروبار کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی اور قرضوں کے لیے حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔
انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم اپنے بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹ رہے ہیں اور ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پہلے سال اور خصوصی طور پر اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی کی گئی۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم چیز ہے کہ ایک ملک ماضی میں لیے گئے قرضے چاہے وہ کتنے ہی بڑی تعداد میں کیوں نا ہوں، وہ واپس کرے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کو واپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ تیسری بہت اہم چیز جو اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس سال بہت سخت انداز میں حکومت کو اخراجات کو کنٹرول کیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہو کہ ہم نے اس انداز میں کنٹرول کیا کہ پرائمری بیلنس قائم ہوگیا ہے یعنی ہمارے اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو۔مشیر خزانہ نے کہا کہ میں اس کے لیے فنانس سیکریٹری اور وزارت خزانہ کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور آرمی چیف کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہذا ہم نے پورا سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے پورا سال کسی بھی ادارے کو کسی بھی حکومتی وزارت کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے اور اس کا اثر آپ نے دیکھا کہ کورونا وائرس آنے سے پہلے ہم پرائمری سرپلس کے ایریا میں چلے گئے تھے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دیں، ان کے لیے انفرااسٹرکچر یعنی سڑکیں، پُل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو باہر کی چیزوں اور باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا، ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائیں تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریبا 27 فیصد جا رہی تھی۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ اب ٹیکسز میں اطمینان بخش اضافہ ہوا ہے، اخراجات میں زبردست کمی اور نظم و ضبط آیا ہے، باہر کے قرضوں کو خوش اسلوبی سے واپس کیا گیا اور اپنے تعلقات تجارت کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ برقرار رکھے اور برآمد کنندگان کی مدد کی تاکہ وہ اپنی برآمدات بڑھائیں۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنہیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، ایسے جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152 ارب روپے رکھے گئے۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں، جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یہ سب چیزیں ہم نے کورونا وائرس کے آنے سے پہلے حاصل کیں، پھر کورونا وائرس آیا اور اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی طلب کم ہوتی ہے تو ہماری برآمدات بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی اور ایسا ہوا بھی ہے۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ملک میں اقتصادی طور پر استحکام پیدا کیا تھا، اس کے نتیجے میں وہ بھی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے کوئی تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہماری برآمدات بھی متاثر ہوئیں، ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اُمید تھی کہ ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4 ہزار 700 ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3 ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کو ٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قدرتی امر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس مشکل وقت میں اپنی کاروباری برادری پر ٹیکسز کی گرفت مضبوط کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان تک قرضے یا نقدرقم پہنچائیں تاکہ ملک میں جو کورونا کی وجہ سے سکڑتی ہوئی معیشت بن رہی ہے اس سے اچھی طرح نبردآزما ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کو بچانا ہے اور اس کے لیے لیے دوطرح کے پیکج دیے گئے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240 ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگرامز پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کاروبار زندگی بھی چلے اور ان کی حالت معاشی طور پر بالکل تباہ نہ ہو۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اب تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دیے جا چکے ہیں جو شاید دنیا کی تاریخ میں ایک نمایاں چیز ہے کہ یہ سب اتنے اچھے انداز میں دیے گئے ہیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ عام پاکستانیوں کو بلا امتیاز یہ پیسے دیے گئے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے گئے، یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ گندم خریدی جائے تاکہ جب کسانوں کے ہاتھ میں یہ پیسے آئیں گے تو وہ اپنے ضروریات زندگی بھی پورے کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ٹریکٹر چاہیے، انہیں گھر بنانا ہے، مویشی خریدنے ہیں یا سرمایہ کاری کرنی ہے تو وہ کریں جس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے تاکہ ویاں کھاد کی قیمتیں کم ہوں اور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کو مراعات دی جا سکیں۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ خود ایک گھر کے مالک بن سکیں اور اس میں ٹیکسز کی چھوٹ بھی دی گئی۔وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پیکج دیا گیا جس میں فکس ٹیکس کی بنیاد پر ٹیکسز دیے گئے تاکہ ایف بی آر کی طرف سے ہراساں نہ کیا جاسکے اور ٹیکسز کی شرح کو بھی کافی حد تک کم کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نیا پاکستان اسکیم کے تحت کم آمدنی والے افراد کے لیے جو گھر بنیں گے تو اس میں ٹیکس میں بھی 90 فیصد کی چھوٹ دی گئی ہے یعنی اگر شروع میں ٹیکس 5 ہزار ہیں تو بعد میں اسے ڈھائی ہزار کردیا گیا تاکہ لوگوں پر بوجھ نہ پڑے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ لینڈ بینک بنائیں تاکہ سرکاری زمین کے اوپر کم آمدنی کے گھر بنائے جا سکیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ جو سال مکمل ہورہا ہے اس میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے، صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 22.9 فیصد رہی۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مال سال کے خسارے (fiscal deficit) کو ہم نے ایک حد تک رکھا اور جولائی سے مارچ تک جی ڈی پی کا 4 فیصد رہا جبکہ پچھلے سال یہ خسارہ 5.1 فیصد تھا، ہم نے پرائمری بیلنس کو سرپلس میں رکھا تھا جو 194 ارب یا 0.5 فیصد تھا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ آنے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے جو پروگرامز ہیں، ان میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں اور جو ٹیکسز ہیں ان کا بھی جائزہ لیا جائے، جو ٹیکسز ہیں ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے اثرات کا تخمینہ لگانا اتنا آسان نہیں اور حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وبا کس رفتار سے بڑھے گی اور کب اس کا خاتمہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوشش کی ہے کہ ایک توازن قائم کیا جائے، ایک جانب لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو دوسری جانب ان کی معاشی صورتحال کو بہت خراب ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔شرح نمو کے حوالے سے مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے بیورو آف اسٹیٹ اسٹیٹکس اور نیشنل اکنامک باڈی کی جانب سے سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق خمینہ لگایا ہے کہ یہ منفی 0.5 فیصد ہوگا جبکہ آئی ایم ایف نے جو نمبر استعمال کیا ہے وہ منفی 1.5فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ آئی ہے جو منفی ڈھائی فیصد پر ہے اور جب جون کا مہینہ ختم ہو گا تو ہمیں زیادہ بہتر اندازہ ہوگا۔
مشیر خزانہ کے بعد وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور خسرو بختیار نے کہا کہ وزیراعظم عمران خانے جب جی 20 ممالک سے قرضوں میںٓ ریلیف کی اپیل کی تو ہمیں ارب 80 کروڑ ڈالر کا ریلیف ملا۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کے مالیاتی ادارے اس وقت پاکستان کے اصلاحاتی پروگرام کو سراہتے ہوئے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں۔خسرو بختیار نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کووڈ-19 کے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر دیے اور گزشتہ روز ایشیائی ترقیاتی نے کورونا وائرس سے متعلق 50 کروڑ روپے کی خصوصی فنانسنگ کی۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3 ارب ڈالر تک کم کیا اسی طرح ہمیں ورثے میں جو 9 ارب 70 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ملے تھے وہ اس سال کے آخر تک ساڑھے 18 ارب ڈالر سے زائد ہوجائیں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو بھی معاشی دھچکے ملے وہ بیرونی مالی پوزیشن، ادائیگیوں میں عدم توازن، کرنٹ اکاونٹ خسارے کی وجہ سے ملے اور اب حکومت ان چیزوں کو اس طرف لے آئی ہے کہ ہم ایک مستحکم پوزیشن پر ہیں۔
خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کے باعث معیشت کا پہیہ چلانا اور اس کے ساتھ زراعت کو ساتھ لے کرچلایا، وزیراعظم نے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت 300 ارب روپے کا ایک مربوط زرعی ترقیاتی بجٹ رکھا ہے جو بڑی فصلوں کی پیداوار، آبپاشی کے نظام کو بہتر بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا، آئی ایم ایف، عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر بینک انہی چیزوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button