کیا کپتان حکومت اگلے الیکشن میں بھی ایسی ہی دھاندلی کرے گی؟


ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے دوران حکومتی سرپرستی میں الیکشن نتائج بدلنے کے لیے 20 سے زائد پریزائیڈنگ آفیسرز کو غائب کرنے کی واردات کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب چند سو پولنگ سٹیشنز اور وہاں پر ڈالے ہوئے ووٹوں کا تقدس برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے تو قومی سطح پر ہونے والے انتخابات بدترین گھپلوں کے بغیر کیسے کروائے جا سکتے ہیں؟
سینئر صحافی سید طلعت حسین اپنے تازہ ترین تجزیے میں کہتے ہیں کہ یہ ضمنی انتخابات ضمنی نہیں بلکہ مطالعہ نیا پاکستان کی پوری کتاب ہے جس کو دیکھ کر آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ نئے پاکستان میں سیاسی اور انتخابی نظام کیسے چل رہا ہے اور اور کیسے چلے گا۔ ضمنی انتخابات میں عموماً عوامی شرکت اور پارٹی کارکنان کا جوش و خروش عام انتخابات سے کہیں کم ہوتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا تجزیاتی مفروضہ بھی یہی ہے کہ اکادکا سیٹوں پر ہونے والے مقابلے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دینا ہی بہتر ہے۔ مگر پچھلے ہفتے نوشہرہ، ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات کو دیکھ کر ہمیں اپنا تصور تبدیل کرنا ہو گا۔
طلعت حسین کہتے ہیں کہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام نشستوں پر مخالف جماعتیں آمنے سامنے کھڑی ہوں۔ اس کی ایک وجہ ان انتخابات کا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہونا تھا۔ ان سے پہلے سندھ میں ضمنی انتخابی مقابلے ہوئے لیکن یہ ہنگامہ نہ مچا۔ نتائج پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ نہ ہی خصوصی نشریات کا بندوبست ہوا۔ دوسری وجہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا ٹاکرا تھا بلکہ یوں کہیں جماعتیں نہیں سیاسی قیادت ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھی۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کے چہیتے وزرا اور مشیر صف بند تھے۔ فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈار ڈسکہ کے انتخابی حلقے میں دندناتے پھر رہے تھے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ دوسری طرف گوجرانوالہ میں وزیر اعظم کے آرائیں دوست اپنی پگ کو سر پر جمانے کے لیے کوشاں تھے۔ مرکز میں ان دونوں نشستوں پر ہار جیت ذاتی عزت اور بے عزتی میں تبدیل کر دی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا میں وزیر دفاع پرویز خٹک اس زعم میں کہ وہ حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ ان کے سامنے کوئی مخالف سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ ویسے بھی نوشہرہ فوجی بھائیوں کا شہر بھی تصور ہوتا ہے۔ تاہم جب الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو حکومتی برج الٹ گے۔
طلعت حسین کے مطابق تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کو اپنا لاڑکانہ سمجھتی ہے۔ یہاں کے نتائج حکمران جماعت کی سیاسی وقعت کا میزان بننے تھے۔ دوسری طرف ن لیگ کی پنجاب میں دو جیتی ہوئی نشستیں تھیں جن کو واپس لینا نہ صرف پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کو تسلی دینے کا ذریعہ ہونا تھا بلکہ یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ پارٹی ختم نہیں ہوئی بلکہ ابھی شروع ہوئی ہے۔ مریم نواز کے لیے یہ تینوں انتخابات ایک ذاتی جنگ تھے۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور خواجہ آصف پابند سلاسل اور خیبر پختونخوا میں ن لیگ ہزارہ کے ان حلقوں سے ہٹ کر میدان میں تھی جہاں پر اس نے تاریخی طور پر بہت کم نسشتیں جیتی ہیں۔ نوشہرہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے اپنے امیدوار کو پی ڈی ایم سے نہ جوڑنے کے بعد صورت حال اور بھی مشکل ہو گئی تھی۔ مریم نواز نے نوشہرہ جانے کا معاملہ جب پارٹی میں اٹھایا تو مخالفت میں دیے گئے مشورے کا خلاصہ یہ تھا کہ پارٹی کی جیت ناممکن ہے اور ہارنے کے بعد نقاد خواہ مخواہ آپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ عملاً مریم نواز کا یہ پہلا ایسا انتخابی معرکہ تھا جس کی تمام تر تیاری اور ہار جیت کی ذمہ داری ان کے اپنے سر تھی۔
اس تمام تناظر کے پیش نظر یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کتنے بڑے ذاتی مفادات ان تین سیٹوں پر مرکوز تھے۔ ایک اور معاملہ اس بیانیے کا بھی تھا جس کا حکومت نے خود سے چرچا کیا۔ یہ کہا گیا کہ یہ کرپٹ ٹولے اور شفاف، دودھ سے دھلے ہوئے نظریات کی جنگ ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حق اور اس کی مخالفت کی لڑائی ہے۔ یہ ماحول بنایا گیا کہ جیسے ان کے نتائج یہ فیصلہ کر دیں گے کہ اگلے پانچ سال کس جماعت کی حکومت قائم ہو گی۔ پھر بے شمار انتظامی، سیاسی وسائل بھی صرف ہوئے۔ معرکے تو چھوٹے تھے مگر تیاری جنگ عظیم جیسی کی گئی تھی۔ میڈیا کے لیے ایک طویل عرصے کے بعد سٹوڈیو میں گھسے پٹے موضوعات کو گھمانے کے تھکا دینے والی سے معمول سے ہٹ کر واقعات پر مبنی رپورٹنگ اور تجزیے کا موقع بنا۔ ہر کارآمد و ناکارہ اینکر خود کو سیاسی افلاطون ثابت کرنے کے لیے میدان میں کود پڑا۔ ایسی تجزیاتی توانائیاں صرف ہوئیں جو اہم ترین قومی معاملات کو زیر بحث لانے میں ہوتی ہیں۔ اور پھر سوشل میڈیا نے اس جوشیلے پن کو درجہ عروج پر پہنچا دیا۔ ان تمام عناصر نے اس وقت ان انتخابات کے نتائج اور ان میں سے نکلنے والے تنازعات کو ایک قومی سیاسی احتساب کی شکل دے دی ہے۔
تاہم نوشہرہ میں حکومتی امیدوار کی شکست کے بعد جس تیزی سے وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کو صوبائی وزارت سے فارغ کیا گیا اس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ نوشہرہ میں لگی چوٹ کا درد حکومت کو کہاں تک محسوس ہوا ہے۔ یاد رہے کہ نوشہرہ کے الیکشن میں لیاقت خٹک نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کی تھی جبکہ پرویز خٹک پی ٹی آئی کے امیدوار کی مہم چلاتے رہے۔ تاہم جب انتخابی نتیجہ آیا تو پرویز خٹک اپنے حلقے سے ہی پی ٹی آئی کی نشست ہار بیٹھے جس کے بعد آباد لیاقت خٹک نے نواز لیگ کے امیدوار کی جیت کا جشن منایا تو عمران خان نے انہیں کابینہ سے فارغ کر دیا۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن ڈسکہ میں ہونے والے حیرت انگیز مگر انتہائی بھونڈے حکومتی دھاندلی کے پلان کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس کے ذریعے وہ 2018 میں ہونے والی مبینہ انتخابی واردات کی یادہانی بھی کروا رہی ہے اور مستقبل میں نظام کی ممنکہ دو نمبریوں کی طرف اشارہ بھی کر رہی ہے۔ حکومت نے ڈسکہ کو جیتنے کے لیے جتنا زور لگایا اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ کی سیاسی کشمکش کیسے رخ اختیار کرے گی۔ جس طرح پولنگ سٹیشنز پولیس سٹیشن میں تبدیل ہوئے، اسلحے کا کھلا استعمال ہوا، حکومتی وزرا ہر طرف دندناتے پائے گئے اور پھر میڈیا میں پروپیگنڈے کی بہتات دیکھنے میں آئی، اس کے بعد شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ سیاسی مفاہمت کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ الیکشن کمیشن جو پہلے سے ہی سینیٹ کے انتخابات میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے زیر عتاب ہے ان معرکوں کے توسط مزید تضادات میں الجھ گیا ہے۔
تاہم ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے فورا بعد گہری دھند میں گم ہو جانے والے 20 سے زائد پریزائڈنگ آفیسرز کے معاملے کا نوٹس لے کر الیکشن کمیشن نے اپنی ساکھ کافی حد تک بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر دیکھنے اور جاننے والے یہ سوچتے ہیں کہ ایسے معاملات جو ساری قوم نے فلم بند ہوئے دیکھے ان کا نوٹس لینا الیکشن کمیشن کی مجبوری کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ یہ اہم ادارہ تمام دن ووٹروں کی لمبی لائنوں اور پولنگ سٹیشن پر ہنگامہ آرائی جیسے معاملات پر عملاً خاموش رہا۔ پولنگ سٹیشن سے عملے کا آگے پیچھے ہو جانا اور انتظامیہ کا چیف الیکشن کمشنر کو فون پر لفٹ نہ کرانا وہ معاملات ہیں جو اس ادارے پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے فارن فنڈنگ کیس اور فیصل واوڈا کی طرف سے برتی گئی توہین آمیز لاپروائیوں نے الیکشن کمیشن کو بیک فٹ پر ڈالا ہوا تھا۔ ان تمام واقعات کو ملا کر پڑھیں تو جس ادارے پر تمام قوم جمہوری بنیاد بنانے کے حوالے سے اعتبار کرتی ہے اس کی صحت کی رپورٹ بری ہی نظر آئے گی۔
طلعت حسین کے مطابق بڑا سوال یہ ہے کہ جب چند سو پولنگ سٹیشنز اور وہاں پر ڈالے ہوئے ووٹوں کا تقدس برقرار رکھنا مشکل ہو تو قومی سطح پر انتخابات بدترین گھپلوں کے بغیر کیسے کروائے جا سکتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ ضمنی انتخابات ضمنی نہیں بلکہ مطالعہ نیا پاکستان کی پوری کتاب ہے جن کو دیکھ کر آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے اور اور کیسے چلے گا۔ اور یہ کہ یہاں کیا مقدس و مقدم ہے اور کیا پامالی اور بے ایمانی کے لئے جائز قرار پا چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button