ڈکیتی کے دوران لٹ جانے والے پنجاب کا منفرد ڈاکوپرویز الٰہی

 

چوہدری پرویز الہی کو ملکی سیاست کا وہ ڈاکو قرار دیا جا رہا ہے

جو ڈاکہ ڈالنے کے دوران خود ہی لٹ گیا اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی گنوا بیٹھا۔ یاد رہے کہ ماضی میں وزیراعظم عمران خان پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا کرتے تھے لیکن پھر انہیں صوبائی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا۔ پھر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد اپنا اقتدار خطرے میں دیکھا تو خان صاحب نے عثمان بزدار کی قربانی دیتے ہوئے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کر دیا۔

لیکن یہ آفر قبول کرتے ہوئے پرویز الہی نے اپوزیشن کو دھوکہ دے دیا کیونکہ موصوف چھ مہینے کی بجائے ڈیڑھ برس کے لیے وزیراعلی بننا چاہتے تھے۔ تاہم ایم کیو ایم کے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے اور کپتان کی چھٹی یقینی ہو جانے کے بعد اب پرویز الہی کو اس ڈاکو سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو ڈکیتی کرتے ہوئے خود ہی لٹ جائے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 35 برس بعد شہباز شریف کا چوہدریوں کے گھر چل جانا ایک بڑا سرپرائز تھا کیونکہ پورا ملک جانتا تھا کہ چوہدری شریف فیملی سے ناراض ہیں۔ نواز شریف نے 1996 میں وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم الیکشن جیت گئے تو پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد شہباز کو وزیراعلیٰ بنا دیاگیا‘ چوہدری صاحبان کا دل ٹوٹ گیا اور اس کا بدلہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں قاف لیگ بنا کر۔لیا۔ انہوں نےمشرف کا ساتھ دیا اور پانچ سال ڈٹ کر پنجاب پر حکمرانی کی‘ دونوں خاندانوں کے درمیان شدید اختلافات اور دوریاں تھیں۔

جاوید چوہدری کے بقول قاف لیگ الیکشن 2008 کے بعد جزوی اور الیکشن 2013 کے بعد مکمل غیر متعلق ہو گئی تھی۔ پارٹی چھوٹی سے چھوٹی ہوتی چلی گئی مگر چوہدریوں کا سیاسی قد برقرار رہا‘ یہ سیاسی سمجھ بوجھ اور برے سے برے حالات میں بھی اپنا راستہ نکالنے والے لوگ ہیں چناں چہ 2018 میں ان کا کم بیک ہوگیا‘ گو وفاق میں ان کی صرف چاراور پنجاب میں سات سیٹیں تھیں لیکن یہ کم تعداد کے باوجود وہ کیل تھے جس کے بغیر دو تختے آپس میں جڑ نہیں سکتے چناں چہ یہ پنجاب میں اسپیکر شپ اوردو وزارتیں اور وفاق میں دو وزارتیں لینے میں کام یاب ہو گئے تاہم عمران خان ان سے خوش نہیں تھے؟ اسکی چار بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ چوہدریوں کا سیاسی قد کاٹھ ہے۔

چوہدری تگڑے اور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں‘ عمران ان سے خائف تھے‘ دوسری وجہ عمران ان کو کرپٹ سمجھتے تھے اور تیسری وجہ مونس الٰہی تھے‘ چوہدری برادران مونس کو وفاقی وزیر بنوانا چاہتے تھے جب کہ عمران ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا دونوں کے درمیان پونے چار سال لو ہیٹ ریلیشن شپ رہا۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ چوہدریوں کو جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی ونراننخے قریب لے کر آئے تھے‘ لیکن جب وہ خود عمران کے ساتھ نہ رہے تو ناراضگیاں بڑھ گئیں، عمران اور چوہدریوں کے اختلاف کی چوتھی وجہ طارق بشیر چیمہ تھے۔ وہ ق لیگ کی طرف سے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے وفاقی وزیر تھے‘ کابینہ میں ہمیشہ بولتے تھے اور وزیراعظم کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ معاملات شاید جوں کے توں چلتے رہتے لیکن پھر ائی ایس آئی چیف کی تقرری کا ایشو آیا‘ معاملات بگڑے اور ترازو آہستہ آہستہ نیوٹرل ہو گیا‘ نیا سال شروع ہوا تو ایک سویلین شخصیت لندن میں نواز شریف سے ملی‘ ون آن ون ملاقات ہوئی اور نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو گرین سگنل دے دیا‘ مولانا ،آصف زرداری کو بھی واپس لے آئے، یوں اپوزیشن نے تبدیلی کی شطرنج بچھا دی۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اپوزیشن کے ہاتھ میں تین مہرے تھے‘ پی ٹی آئی کے 25 ارکان اپوزیشن سے رابطے میں تھے‘ 14 لوگ ن لیگ کے ٹکٹوں کے متمنی تھے‘ 8 پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں تھے اور تین مولانا فضل الرحمن سے ٹکٹ لینا چاہتے تھے۔ یہ لوگ مزید اراکین اسمبلی بھی لا سکتے تھے لیکن اپوزیشن کے پاس مزید ٹکٹ دستیاب نہیں تھے‘ دوسرا مہرہ اتحادی تھے اگر اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیتے تو حکومت دو دن میں گر جاتی‘ اپوزیشن نے ان پر بھی کام شروع کر دیا اور تیسرا مہرہ اتحادی پارٹیوں کی تقسیم تھی‘ اپوزیشن نے فیصلہ کیا اگر اتحادی نہیں مانتے تو پھر ان کے ارکان توڑ لیے جائیں‘ ق لیگ کے اندر بھی دراڑ ڈال دی جائے اور ایم کیو ایم‘ باپ پارٹی اور جی ڈی اے کے ارکان کو ساتھ ملا لیا جائے اور اس حکمت عملی کے تحت شہباز شریف چوہدری صاحبان کے گھر پہنچ گئے۔ یہ ملاقات آصف زرداری کی سفارت کاری کا نتیجہ تھی‘ زرداری صاحب پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانا چاہتے تھے‘ ن

واز شریف نہیں مان رہے تھے لیکن مولانا اور زرداری صاحب نے انھیں بڑی مشکل سے راضی کر لیا‘ بہرحال ملاقات ہوئی اور شہباز شریف نے انھیں کھانے کی دعوت دے دی لیکن اگلے چند دنوں میں دو نئی ڈویلپمنٹس ہو گئیں‘ مونس الٰہی نے وزیراعظم کے سامنے اعلان کر دیا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ تعلقات بناتے اور نبھاتے ہیں‘ کوئی گھر آئے تو اسے ویلکم کرتے ہیں‘ ہمارا آپ سے تعلق نبھانے کے لیے بنا ہے۔ لہذا آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ یہ اعلان اپوزیشن کے لیے سرپرائز تھا لہٰذا یہ لوگ ناراض ہو گئے اور پلان بی اور سی کی طرف بڑھنے لگے۔ پرویز الٰہی نے دوسری غلطی شہباز شریف کے ڈنر پر نہ جا کر کی اور یوں معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔

جب تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی سامنے آ گئے تو پرویز الٰہی کی بارگینگ پوزیشن کمزور ہو گئی۔ چوہدری شجاعت نے گیم ہاتھ سے نکلتے دیکھی تو آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے جاملے۔ پھر پرویز الٰہی نے اوپر تلے انٹرویوز دیے اور اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دیا‘ چوہدری دوبارہ ڈائیلاگ میں آ گئے‘ اس دوران حکومت نے منحرف ارکان سے رابطے شروع کر دیے جس سے اپوزیشن گھبرا گئی اور اس نے اتحادیوں سے رابطے تیز کر دیے‘ اس دوران باپ پارٹی مان گئی۔ ایم کیو ایم کے تمام مطالبات بھی مان لیے گئے اور نواز شریف نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا چناں چہ 27 مارچ کی شام ن لیگ کا وفد چوہدری صاحبان کے گھر گیا‘ مبارک باد پیش کی‘ کھانا کھایا اور آخر میں دعا بھی ہو گئی۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اس دوران پرویز الہی نے ن لیگ کو مشورہ دیا یہ خبر جوں ہی عمران تک پہنچے گی یہ پنجاب اسمبلی تڑوا دیں گے لہٰذا آپ کل عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دیں‘ ن لیگ مان گئی‘ پرویز الٰہی رات بارہ بجے آصف زرداری کے گھر گئے۔ شکریہ ادا کیا اور ان سے گلے مل کر واپس آ گئے لیکن اگلی صبح حکومت کا وفد چوہدریوں کے گھر آیا اور وزارت اعلیٰ کی پیش کش کر دی‘ مونس نے یہ آفر قبول کر لی‘ ان کا خیال تھا اپوزیشن کی چیف منسٹری دو تین ماہ سے ذیادہ نہیں ہو گی جب کہ عمران انھیں ڈیڑھ سال پنجاب کا اقتدار دیں گے‘ ہمیں لمبا سودا کرنا چاہیے‘ تاہم اس معاملے پر چوہدری شجاعت اور طارق بشیر چیمہ کی مخالفت کے باوجود پرویزالٰہی مونس کے ساتھ وزیراعظم کے پاس چلے گئے اور یوں انکی ایک غلطی نے چوہدری ظہور الٰہی کا گھرانہ توڑ دیا۔

ناظم جوکھیو قتل کیس میں انصاف کا جنازہ کیسے اٹھا؟

پرویز الٰہی نے اس غلطی کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان اٹھایا ہے۔ وہ ڈیڑھ برس کا وزیر اعلی بننے کے چکر میں اسپیکر شپ سے بھی ہاتھ دھونے جا رہے ہیں۔ موصوف اپوزیشن کے ساتھ ہوتے تو وزیراعلیٰ بھی بن جاتے اورانھیں اگلے الیکشن میں مزید سیٹیں بھی مل جاتیں لیکن بہرحال گئے وقت اور نکلے ہوئے تیر کبھی واپس نہیں آتے۔ پرویز الٰہی کو ان کے ضرورت سے ذیادہ لالچی بیٹے نے مروا دیا۔ تاہم طارق بشیر چیمہ نے بغااوت کر کے اپنی سیاست بچا لی۔ دوسری جانب چوہدری شجاعت نے پرویز الہی کے فیصلے کی حمایت کرکے نہ صرف اپنی سیاسی ساکھ کا جنازہ نکال دیا بلکہ چوہدریوں کو بے وقار بھی کر دیا۔ چنانچہ پرویز الہی کو وہ ڈاکو قرار دینا بے جا نہ ہو گا جو ڈکیتی کے دوران خود لٹ جائے۔

Punjab’s unique dacoit Pervez Elahi latest Urdu news | video

Back to top button