بینظیر پر حملوں میں ملوث رمزی امریکہ میں کیوں قید ہے؟

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ میں گزشتہ تین عشروں سے قید کاٹنے والے شدت پسند رمزی یوسف نے بینظیر بھٹو شہید کو بھی جان سے مارنے کی کوشش کی تھی لیکن بعد ازاں امریکہ میں حملوں کے الزام میں اسلام آباد سے پکڑا گیا اور حوالگی کے بعد اب وہاں 240 برس قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔

26 فروری 1993 کو ایک بارود سے بھری کار سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر گرانے میں ناکامی کے بعد گیارہ ستمبر 2001 کو طیاروں کے ذریعے اس عمارت کو گرانے کا ماسٹر مائنڈ رمزی یوسف گزشتہ 27 سال سے ایک امریکی جیل میں موت کا انتظار کر رہا ہے۔

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے مطابق رمزی یوسف نے 1993 کے الیکشن سے قبل اور الیکشن کے دوران دو مرتبہ انھیں بم دھماکے میں مارنے کا منصوبہ بنایا جس میں وہ ناکام رہا تھا۔ 1998 میں امریکی عدالت کی جانب سے کئی الزامات پر کروڑوں ڈالرز جرمانے اور 240 برس کی قید سزائے جانے کے بعد شدت پسند رمزی یوسف کے بارے میں کوئی خبر نہیں اسے کہاں رکھا گیا اور وہ کس حال میں ہے۔

یاد رہے کہ سات فروری 1995 کو امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے پاکستانی ایس ایس جی کمانڈوز کی مدد سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ٹو میں واقع ’سوکاسا گیسٹ ہاؤس‘ کا گھیراؤ کر کے 27 سالہ پاکستانی نژاد کویتی نوجوان رمزی یوسف کو گرفتار کیا تھا، جو امریکی حکومت کو دو سال قبل 26 فروری 1993 کو امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کار بم حملے سمیت دیگر جرائم میں مطلوب تھا۔

امریکی حکام کے مطابق رمزی یوسف گیارہ ستمبر 2001 کو القاعدہ کے عالمی تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گرد حملوں کا اصل منصوبہ ساز تھا جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو مکمل طور پر زمین بوس کر دیا گیا تھا۔ رمزی یوسف نے 26 فروری 1993 کو ٹرک بم حملے کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو گرانے میں ناکامی پر اس عمارت کو طیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے 2001 میں القاعدہ کی مدد سے رمزی یوسف کے ماموں خالد شیخ محمد نے تکمیل تک پہنچایا۔

امریکہ میں 26 فروری 1993 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بم حملے کے بعد رمزی یوسف اپنے اصل نام عبدالباسط کریم پر بنے پاسپورٹ کے ذریعے امریکہ سے کراچی فرار ہوا، اور اس طرح امریکی انٹیلیجنس اداروں کو اُس کی اصل شناخت کا پتہ لگ گیا تھا۔ شناخت پتہ چلنے کے بعد امریکہ نے پاکستانی حکومت سے رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد کے لیے رابطہ کیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو رمزی یوسف کی گرفتاری کا مشن سونپا کیا گیا تھا۔

رمزی کی گرفتاری بارے معلومات اس کے قریبی ساتھی اشتیاق پارکر نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کو فراہم کی تھیں، انتہائی مطلوب شدت پسند کی گرفتاری میں مدد دینے پر پارکر کو امریکی حکومت کی طرف سے 20 لاکھ ڈالرز کے انعام سے نوازا گیا۔ بعدازاں سکیورٹی کے پیش نظر اشتیاق پارکر، ان کی اہلیہ اور بچے کو امریکہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

تب کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی بعد میں شائع ہونے والی تحاریر کے مطابق رمزی یوسف نے 1993 کے الیکشن سے قبل اور اس کے دوران دو مرتبہ انھیں بم دھماکہ میں مارنے کا منصوبہ بنایا تھ۔ اسی لیے رمزی نے گرفتاری کے بعد تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ اُس کا خیال تھا کہ شاید پاکستانی اداروں نے اسے بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملوں کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ اپنی گرفتاری کے وقت رمزی یوسف اس بات سے بے خبر تھا کہ اسے دراصل امریکی انٹیلیجنس اداروں کی خفیہ معلومات پر پاکستانی سکیورٹی فورسز گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر رہی ہیں۔

کینیڈا:ٹرک ڈرائیورز کا احتجاج 10ویں روز میں داخل

گرفتاری کے بعد رمزی کی امریکہ منتقلی پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا کہ جس میں امریکی انٹیلیجنس اداروں نے اپنے ایک ایسے ملزم کو پاکستانی سرزمین سے گرفتار کر کے بغیر عدالتی کارروائی امریکہ منتقل کیا تھا جو کہ ایک لحاظ سے پاکستانی شہری بھی تھا اور جس کا پاکستان کے بااثر سیاسی مذہبی حلقوں کے ساتھ گہرا تعلق بھی تھا۔

اسی لیے امریکی اہکاروں کے پاکستانی دارالحکومت سے رمزی یوسف کو گرفتار کر کے امریکہ لے جانے پر حکومت مخالف سیاسی اور خصوصاً مذہبی طبقہ سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے متعلق شدید ردعمل آیا۔
بے نظیر بھٹو کی تحاریر کے مطابق رمزی کی گرفتاری کے ردعمل میں اُسی سال نومبر کے مہینے میں القاعدہ نے اسلام اباد میں واقع مصری سفارتخانے پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا خودکش ٹرک بم حملہ کروایا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ ستمبر 1992 میں رمزی یوسف امریکہ منتقل ہوا تھا جہاں اس نے سات فروری 1993 کو امریکہ میں مقیم اپنے عرب نژاد ساتھیوں کی مدد سے ورلڈ ٹرید سینٹر کو ایک کار بم حملے کے ذریعے نشانہ بنایا۔ رمزی یوسف کے اُن ساتھیوں کا تعلق مصر اور فلسطین سے تھا جو برسوں سے امریکہ میں مقیم تھے۔

رمزی اور اس کے ساتھیوں نے دیگر ہزاروں غیر ملکی شدت پسندوں کی طرح افغانستان اور پاکستان میں واقع شدت پسندوں کے عسکری مراکز میں وقت گزارا تھا، جہاں یہ تمام افراد ‘افغان جہاد’ میں شمولیت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان مجاھدین کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ اب ان کا اگلا ہدف امریکہ ہوگا جو کہ اُن کے بقول مسئلہ فلسطین سمیت اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا اصل ذمہ دار ہے۔ اس کے ساتھ عراق کویت جنگ کے دوران سعودی حکومت کے درخواست پر امریکی فوج کے سعودی عرب میں فوجی مراکز میں قیام نے ان شدت پسندوں کے امریکہ مخالف نفرت میں شدید اضافہ کیا تھا۔

1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ایک ناکام کار بم حملے کے فوراً بعد رمزی یوسف امریکی سکیورٹی اداروں سے کامیابی سے بچ کر پاکستان بھاگ آیا تھا، مگر اُن کے امریکہ سے فرار کے چند روز بعد ہی اُس کے شریک جرم سہولت کار ساتھی پکڑے گئے تھے جنھوں نے یہ اطلاع دی کہ منصوبے کا ماسٹر مائنڈ رمزی یوسف تھا۔ اس کے بعد رمزی یوسف امریکی انٹیلیجنس اداروں کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو گئا۔

مشہور فرانسیسی محقق ولیور رائے کے مطابق رمزی یوسف اور عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے نظریات اور ان کا پس منظر تقریباً ایک ہی تھا۔ دونوں نے ہی سوویت افواج کے افغانستان پر شدت پسندوں کے گٹھ جوڑ سے جنم لیا تھا، اور اس جنگ کے اختتام کے بعد انھوں نے بتدریج امریکہ کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا مگر اس مماثلتوں کے باوجود رمزی یوسف کا کبھی اسامہ بن لادن یا اُن کے تنظیم القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔

نائن الیون کمیشن رپورٹ کے مطابق رمزی یوسف کے ماموں اور بعد میں بن لادن کے دست راست بننے والے خالد شیخ محمد نے نائن الیون حملوں کے بعد امریکی اہلکاروں کو دوران تفتیش بتایا تھا کہ رمزی یوسف کبھی القاعدہ کا رکن نہیں رہا اور نہ ہی اس نے کبھی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی۔

رمزی یوسف کا اصل نام عبدالباسط کریم تھا جو کہ مشرقی وسطیٰ کے ملک کویت میں ایک پاکستانی نژاد گھرانے میں اپریل 1968 میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کے خاندان کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل دور دراز سرحدی علاقے کے بلوچ قبائل سے تھا جو کہ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں کویت منتقل ہو گئے تھے۔

رمزی یوسف کے نانا کویت کی ایک بڑی مسجد میں پیش امام و خطیب تھے ۔ بعد میں رمزی یوسف کے ماموں کویت میں اخوان المسلمین تنظیم کے شاخ سے وابستہ ہوگئے تھے جہاں اُن کے بڑے ماموں شیخ عابد اس تنظیم کی نوجوانوں کی شاخ کے سرکردہ رہنما بنے۔

امریکی عدالتی فیصلہ کے مطابق رمزی یوسف کو سزا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ٹرک بم حملہ کرنے، اور فلپائن میں ایک درجن امریکی مسافر بردار ہوائی جہازوں کو تباہ کرنے کے ناکام منصوبے کے کیسز میں سنائی گئی تھی۔ امریکی میڈیا میں اگلے دن شائع ہونے والی اس عدالتی کارروائی کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلہ کے بعد رمزی یوسف نے پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی میں ان جرائم میں ملوث ہونے کا اقرار کرتے ہوئے امریکہ مخالف ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔ امریکی میڈیا کے مطابق رمزی یوسف نے اپنے اس منصوبے کو امریکہ کی جانب سے اسرائیلی ریاست کی پشت پناہی اور اسلامی ممالک میں دخل اندازی کا ردعمل قرار دیا تھا۔

Back to top button