چینی انجینئرز پر خودکش حملے میں BLA کے ساتھ RAW بھی ملوث

کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے میں بلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔ خود کش حملے کی تفتیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی جس شخص نے خریدی تھی اسے فنڈنگ را نے کی تھی جس کے ثبوت مل گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی بلوچستان لبریشن آرمی کو پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے لیے فنڈنگ کر رہی ہے اور کراچی خود کش حملہ بھی را کی فنڈنگ سے کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی اور بی ایل اے دونوں پاکستان اور چین کی مثالی دوستی کو تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب خود کش حملے میں جان بحق ہونے والے دونوں چینی انجینیئرز حکومت پاکستان کی دعوت پر آئے تھے تاکہ بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے مذاکرات کر سکیں۔

حکومتی ذمہ داران کے دعوؤں کے برعکس کراچی ائیرپورٹ کے قریب چینی شہریوں پر ہونے والا حملہ خودکش نکلا۔ خودکش دھماکے میں 70 سے 80 کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چینی شہریوں کو لے جانے والے قافلے پر اتوار کے رات ہونے والے خودکش حملے میں دو چینی انجینیئرز سمیت تین افراد ہلاک جبکہ 17 افراد زخمی ہوئے تھے۔ دھماکے کے بعد پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پر دھماکہ گاڑی کے ٹینکرسے ٹکرانے پر  ہوا تاہم بعد ازاں صوبائی وزیرِ داخلہ ضیا الحسن لنجار نے بتایا تھا کہ اطلاعات ہیں دھماکا آئی ای ڈی ہے اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں

تاہم اب بم ڈسپوزل یونٹ نے دھماکے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ تیار کر لی ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کراچی ایئرپورٹ کے قریبی چینی شہریوں پر ہونے والا دھماکا خودکش تھا جس میں 70 سے 80 کلوگرام مواد استعمال کیا گیا، گاڑی کے مالک کا بھی پتا چل گیا ہے جو کہ بلوچستان کا رہائشی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دھماکا گاڑی میں دھماکہ وی بی آئی ای ڈی کے ذریعے کیا گیا، دھماکا جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر روانگی کے سگنل پر ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ خود کش حملہ غیر ملکیوں کے وفد پر ہوا، دھماکے کے نتیجے میں 12 گاڑیوں کو بری طرح نقصان پہنچا اور تین مکمل تباہ ہوئیں، دھماکے میں تقریباً 70 سے 80 کلو گرام کمرشل دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور گاڑی میں دھماکا خیز مواد لے کر سوار تھا اور چینی باشندوں کی آمد کا منتظر تھا جس نے ہدف کو قریب آتے دیکھ کر گاڑی ان سے ٹکرادی۔

دوسری جانب خودکش حملے میں استعمال گاڑی کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں، تفتیشی حکام نے بتایا ہے کہ حملے میں استعمال گاڑی کے چیسز سے مالک کی تفصیلات مل گئی ہیں جس کا نام شاہ فہد ہے اور وہ بلوچستان کے شہر نوشکی کا رہائشی ہے۔تفتیشی حکام کے مطابق نادرا ریکارڈ کے تناظر میں تحقیقات کا دائرہ بلوچستان تک پھیلادیا گیا ہے، شاہ فہد کی شناختی دستاویزات حاصل کرلی گئی ہیں اور شاہ فہد کے زیر استعمال سموں کے ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

خیال رہےکہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے فی الحال اس حملے کے خودکش ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ جس مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک پولیس چوکی بھی قائم ہے جبکہ کچھ ہی فاصلے پر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کا سکیورٹی ٹاور بھی ہے۔ایئرپورٹ کے داخلی راستے سے شاہراہ فیصل جانے کے لیے عموماً یہ سڑک استعمال ہوتی ہے جبکہ اس کے بالکل سامنے کی ایک سڑک ملیر کینٹ کی طرف جاتی ہے۔جناح ایئرپورٹ کا یہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون میں شامل ہے۔ اس سے قبل سنہ 2014 میں ایئرپورٹ کے اندر حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کرنے کے لیے موجود ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔کراچی میں 2017 سے یہ چینی شہریوں پر آٹھواں حملہ ہے، یہ حملے زیادہ تر بلوچ اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیے گئے ہیں، پاکستان میں 2015 میں سی پیک کے منصوبے کے آغاز کے بعد بلوچ اور سندھی قوم پرستوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔

سنہ 2017 سے چینی شہریوں پر حملوں کی ابتدا ہوئی اور اب تک سی پیک سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں جن میں 12 چینی شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوئے ہیں ان میں صوبہ سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور خیبر پختونخوا میں دو حملے کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل، رواں برس مارچ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے کو داسو ڈیم کی طرف جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجنییئر ہلاک ہوئے تھے۔اس حملے کے بعد چین کی جانب سے پاکستان پر ملک میں چینی باشندوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔

اس سے قبل جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سنہ 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں سات پاکستانی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ سنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔حملے کے بعد بی ایل اے کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو بر طرف کیا جا چکا تھا تو مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔سنہ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا۔

Back to top button