تحریک انصاف میں بغاوت، فارورڈ بلاک بنانے کا فیصلہ
ا
پوزیشن کے حملے کا سامنا کرنے والے وزیراعظم عمران خان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ بالآخر ان کی جماعت میں ایک بڑا شگاف پڑنے جا رہا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ کپتان کے سابقہ ساتھی جہانگیر خان ترین کے ایما پر پنجاب کے سابق سینیئر وزیر علیم خان نے تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی پر مشتمل ایک علیحدہ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جسکا اعلان 24 گھنٹوں میں متوقع ہے۔ تحریک انصاف کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کا یہ اجلاس 7 مارچ کے روز جہانگیر ترین خان کی لاہور میں واقع ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ پر منعقد ہو گا جس کی صدارت لندن میں موجود ترین ویڈیو لنک پر کریں گے۔
یاد رہے کہ جہانگیر خان ترین پچھلے ایک ہفتے سے علاج کی خاطر لندن میں موجود ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے اپنا اقتدار خطرے میں دیکھ کر فون پر ان کی خیریت بھی دریافت کی تھی۔ تاہم شاید انہوں نے ایسا کرنے میں بہت دیر کر دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ترین کے لندن جانے کا بنیادی مقصد علاج کے علاوہ اپنی جماعت کے باغی اراکین کو اکٹھا کرنا تھا جو پاکستان میں رہ کر ممکن نہیں تھا، وہ مسلسل ایجنسیوں کے ریڈار پر تھے چنانچہ انہوں نے لندن میں بیٹھ کر بذریعہ فون اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور اب پی ٹی آئی کے اندر ایک علیحدہ گروپ کا اعلان ہونے جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر خان ترین کی جانب سے کھل کر سامنے آنے اور قومی سیاست میں حصہ ڈالنے کا ایک واضح مطلب یہ بھی ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی تبدیلی کے لیے گرین سگنل مل گیا یے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سماء ٹی وی خریدنے والے بلڈر اور بزنس میں علیم خان ترین مستقبل قریب میں پنجاب کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں حالانکہ اس پہلے انہوں نے سینئر وزیر کے عہدے سے استعفی دیتے ہوئے عمران خان کو بتایا تھا کہ وہ اب سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
خیال رہے کہ علیم خان نہ صرف جہانگیر ترین کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے ساتھ بھی ان کے نہایت دوستانہ تعلقات ہیں۔ عمران خان نے جہانگیر ترین سے اختلافات کے بعد علیم خان کو پنجاب کا سینئر وزیر بنایا تھا حالانکہ اس سے پہلے انہیں کرپشن ان کے الزامات پر گرفتار بھی کروایا گیا تھا اور وہ کئی ماہ نیب کی قید میں رہے تھے۔
جہانگیر خان ترین کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ انکا گروپ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے دوران فیصلہ کن کردار ادا کرنے جا رہا ہے اور حزب اختلاف کی نمبرز گیم پوری کرنے میں اس کا کلیدی رول ہوگا۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر گجرات کے چوہدریوں نے مرکز میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں میں حصہ ڈالنے کے عوض پنجاب کی وزارت اعلی کی پیشکش قبول نہ کی تو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی مدد سے علیم خان کو بھی عبوری مدت کے لئے وزیر اعلی پنجاب بنایا جا سکتا ہے۔
علیم خان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مارچ کو ہونے والے اجلاس کے دوران اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا اور اس بات کا امکان ہے کہ ترین گروپ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ترین گروپ حکومتی جماعت کی مذید حمایت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو نہ صرف بزدار حکومت ڈول جائے گی بلکہ مرکز میں عمران خان حکومت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
ذرائع کا کہنا یے کہ ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے ممکنہ باغی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی تعداد 30 سے 35 کے قریب ہے جو کہ 7 مارچ کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ لیکن بعد ازاں ان اراکین کی تعداد میں اضافے کا قوی امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کا باغی دھڑا کھل کر سامنے آ گیا اور اس نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں حصہ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر دو اہم ترین حکومتی اتحادیوں قاف لیگ اور ایم کیو ایم کی جانب سے بھی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کا قوی امکان موجود ہے۔ پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے والی یہ دونوں جماعتیں پہلے سے ہی حزب اختلاف کی قیادت سے رابطے میں ہیں اور صرف حکومتی جماعت میں بغاوت کا انتظار کر رہی ہیں لیکن حزب اختلاف کے کیمپ میں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) میں موجود کچھ عناصر یہ چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد حکومتی اتحادیوں کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش کی جائے کیونکہ انہیں مطلوبہ تعداد میں تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی حمایت پہلے ہی حاصل ہو چکی ہے۔
اسحق ڈار کی ویڈیو لنک سے حلف لینے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
بتایا جا رہا ہے کہ تقریبا دو درجن کے قریب تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کو اگلے الیکشن میں نون لیگ کے ٹکٹ کی یقین دہانی حاصل ہوچکی ہے جس کے عوض وہ تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔
اس کے علاوہ کچھ مزید اراکین اسمبلی کو سندھ میں پیپلزپارٹی اور خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کی جماعتوں کے ٹکٹ کی یقین دہانی مل چکی ہے جس کے بعد وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔