ڈی چوک میں لال گلاب کا تختہ
تحریر : وجاہت مسعود
بشکریہ: روزنامہ جنگ
لکھنے والے بھی عجیب مخلوق ہوتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں میں بسیرا کرنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی گلی کوچوں میں بسنے والی سادھارن مخلوق سے الگ کسی کھپریل کے نیچے جا بیٹھتے ہیں۔ کوئی ٹکسالی گیٹ کے حجرے میں جا بیٹھتا ہے تو کوئی دریا کے کنارے کسی بے آباد عبادت گاہ کے خاموش کونے میں چند بوسیدہ کتابوں اور اپنے ہی لکھے پرانے کاغذوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔ یہ لو گ کسی کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ نقصان۔ تنگ بازاروں اور آباد کوچوں میں طر ح طرح کے بیوپار سے رزق کمانے والے کبھی انہیں مجنوں سمجھتے ہیں تو کبھی سرگوشیوں میں ان آشفتہ مزاج بوریا نشینوں کی کٹیا میں زیر زمین دبے سکوں اور خزینوں کا ذکر کرتے ہیں۔ 1997 میں اسدمحمد خان نے کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع کیا تھا ’غصے کی نئی فصل‘۔ سولہویں صدی کے حکمران شیرشاہ سوری کے دارالخلافہ سہسرام کی ایک سرائے کی اس حکایت میں دو بنیادی کردار ہیں۔حافظ شکراللہ خان اور ایک کم عمر طالب علم فیروز۔ اسد محمد خان اپنی ذات میں جدید اردو ادب کا حافظ شکراللہ ہے جس نے نوے کی دہائی کے کراچی سے ٹپکتے لہو کے قطروں میں صاحبان اقتدا ر کا کھیل سمجھ لیا تھا ۔ یہ وہ دن تھے جب وقفے وقفے سے کراچی میں آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ لال انگارہ آنکھوں والے نوجوان اسلحہ اٹھائے بازاروں میں نکل آتے تھے اور اندھا دھند درجنوں لاشیں گرا کر نامعلوم ٹھکانوں میں غائب ہو جاتے تھے۔ اسد محمد خان نے مردوزی فرقے کے عجیب وغریب رسم و عقائد کی آڑ میں کراچی شہر کی بپتا بیان کی تھی۔ رات کے اندھیرے میں الاؤ کے گرد جنگلی درندوں کی طرح خوفناک آوازیں نکالنے والوں نے یہ راز جان لیا تھا کہ ’آدمی کا مزاج محبت ، غصے ، عقیدت اور نفرت کے عناصر میں گندھا ہے۔ غصے اور نفرت کو سلیقے سے باہر نکلنے کا راستہ مل جائے تو انسانوں میں محبت ، رواداری اور مدارت کی ٹھنڈک باقی رہ جاتی ہے۔ ‘
اسد محمد خان کا بیان ہے کہ سہسرام کے حکمران شیر شاہ سوری کا مردوزی فرقے کی شبینہ مجلسوں سے تعلق نہیں تھا۔ پانچ صدی بعد اسد محمد خان جس کراچی شہر میں زندہ رہنے پر مجبور تھا وہاں اہل حکم نے بالارادہ غصے کی فصل بوئی تھی۔ مختلف زہریلے پیڑ بوٹوں کے تختے لگائے تھے اور انہیں اپنا غم و غصہ ، حسد ، عصبیت اور نفرت کو ہوا دینے کے لیے اسلحہ فراہم کیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ اسد محمد خان کے شہر کراچی میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے موتیے کے سفید پھول برآمد نہیں ہوتے تھے۔ مار دھاڑ کا ہر واقعہ بے نام قبروں کی چند قطاریں بڑھا دیتا تھا۔ کراچی سے بہت دور اسلا م کے نام پر آباد ہونے والے دارالخلافے میں حکمرانی بدل جاتی تھی۔سہسرا م کے حافظ شکراللہ خان کا ان کہا شاگرد فیروز جب اسد محمد خان کی کہانی میں پہنچا تو اس کا نام حارث خلیق ٹھہرا جس نے ہڈیوں کی موٹھ ایک جھریوں بھری پختون ماں کا بین لکھا تھا، ’ارے ہم تو جوسف جئی تھے‘۔ اسی شہر میں اجمل کمال نامی ایک صاحب کمال نے دو جلدوں میں ’کراچی کی کہانی ‘لکھی تھی۔
تین دہائیوں تک کراچی میں مردوزی قتل و غارت کے موسم نے ساحل سمندر پر آباد شہر کو ویرانہ کر دیا تھا۔اس شہر کی گلیوں میں آزاد گھومتے درندوں ، دنیا بھر سے لائے گئے چکو بازوں اور چند سکوں کے عوض ماؤں کے بچے مار ڈالنے والے منصب داروں کے اس خونیں کھیل میں خوف اور بے نیازی کی درمیانی سرحد پر کھڑی شاعرہ زہرہ نگاہ نے لکھا تھا۔ ’سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے‘۔ کراچی کی کہانی میں لہو رنگ سطریں ایزاد کرنے والے مگر اس وقت تک اپنا کھیل کھیلتے رہے جب تک انہیں کراچی کے مغرب میں بلوچستان کے نیم آباد میدانوں اور بے آب و گیاہ پہاڑوں کا منطقہ میسر نہیں آگیا۔یہاں انسانی جان کی قیمت کم تھی،گھبرو جوان بولان کی زندگی بخش فضاؤں میںکوئی خبر چھوڑے بغیرغائب ہو جاتے تھے۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ جوان بندوق اٹھا کرپہاڑوں پر نکل گئے ہیں یا کسی کرائے کے قاتل کی عقوبت گاہ میں ظلم سہہ رہے ہیں۔ ماؤں کے آنسوہوا میں گم ہو جاتے تھے۔ بہنوں کے خوبانی جیسے رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریںکسی اخبار میں خبر نہیں بن پاتی تھیں۔ ننھے بچوں کے ننگے پیروں پر جمی دھوپ اور مٹی کی تہ ان کی تقدیر کا زائچہ بن جاتی تھی۔ اس خطے میں مردوزی فرقے کے سرکاری خریطہ بردار اجنبی زبان بولتے تھے اور یہاں کے قبیلوں کے سردار ہزاروں میل دور محفوظ مقامات سے پیغام رسانی کرتے تھے۔
اسد محمد خان کی کہانی میں حافظ شکراللہ ایک پارچے میں باندھ کر شیرشاہ سوری کے آبائی وطن کوہ سلیمان کی مٹی لایا تھا۔ میں نے کہا ناں کہ کتابوں کی دنیا میں رہنے والے مٹی کی سوگندھ اور دریاؤں کے پانی میں ان لکھی کہانیاں پڑھتے ہیں۔ حافظ شکراللہ خا ن نے شیرشاہ سوری کی محل سرا سے چند کوس دور واقع سرائے میں غصے کی فصل کا یہ بندوبست دیکھا تو اس کا جی اٹھ گیا۔ کوہ سلیمان سے نذر کے طور پر لائی مٹی اب اسے سوغات کی بجائے خس و خاشاک کا بے معنی بوجھ معلوم ہو رہی تھی۔ حافظ شکراللہ نے شیرشاہ سوری سے ملنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ کوہ سلیمان کی پارچے میں بند مٹی کھول کر اس تختہ زمین پر بکھیر دی جہاں رات بھر غصیلی آوازوں میں ایک دوسرے پر غرانے والوں کی چیخ و پکار سے سفید پھول اگتے تھے۔ کسی کو بتائے بغیر حافظ شکراللہ نے واپسی کا قصد کیا تو اس کی نظر اچانک پھولوں کے اس تختے پر پڑی وہاں سفید کلیوں کے بیچوں بیچ لہو رنگ پھولوں کی فصل سر اٹھا رہی تھی۔ اسد محمد خان کی کہانی کے بارے میں یقین سے کہنا مشکل ہے کہ یہ تاریخ ہے یا افسانہ۔ اس بستی سے آنے والے البتہ یہ بتاتے ہیں کہ سفید پھولوں کے تختے کو اب ڈی چوک کہا جاتا ہے اور یہاں غصے کی فصل کے سرخ پھولوں سے لال بھبوکا آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ دن اور رات کا فرق باقی نہیں رہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پانچ سو برس پہلے سہسرام میں غصے اور نفرت کے نکاس کا بندوبست اہل شہر نے کیا تھا اور ڈی چوک میں یہ رسم شاہی محلات میں طے کی گئی تمثیل کے مطابق ادا کی جاتی ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’گمشدگی‘ اور ’بازیابی‘