حکومت عمران کے دوغلے پن کی وجہ سے مذاکرات سے انکاری
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے حکومت پی ٹی آئی قیادت پر اعتبار کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ اسی لئے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کیلئے ترلوں منتوں کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے یوتھیے رہنماؤں سے ایڈوانس ضمانت طلب کر لی ہے۔ وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پہلے عمران خان سے اس بات کی گارنٹی لے کر آئیں کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی جو چیزیں حکومت کے ساتھ طے کرے گی عمران خان اس پر عملدرآمد کرینگے اور کوئی یوٹرن نہیں لینگے۔ حکومت نے عمران خان کی جانب سے ضمانت کی فراہمی تک مذاکراتی عمل آگے بڑھانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف سے مجوزہ مذاکرات کو سنجیدہ بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے اس بات کی پیشگی ضمانت طلب کر لی ہے کہ مذاکراتی عمل میں جو بھی فیصلے ہونگے انہیں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان بھی بلا حیل و حجت تسلیم کریں گے۔ ذرائع کےمطابق حکومت کی جانب سے یہ گارنٹی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس لئے مانگی گئی ہے کہ عمران خان کے طرزعمل اور یقین دہانیوں میں پختگی اور سنجیدگی کا فقدان ہے اور وہ موقف بدلنے میں دیر نہیں لگاتے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں شروع سے ہی ’’یوٹرن‘‘لینے کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس لئے یہ ضمانت اور گارنٹی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ مذاکراتی عمل کا تماشہ نہ بنایا جائے۔ذرائع کے مطابق ضمانت کی شکل میں یہ تجویز عمران خان کو ان کی پارٹی کے ذرائع سے پہنچا دی گئی ہے۔ اب عمران خان کی جانب سے مثبت جواب ملنے کےبعد ہی مذاکراتی عمل میں پیشرفت ہوگی۔ ذرائع کے بقول حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جیل میں بانی پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن کے معاملات کو گڈی گڈی سمجھتے ہیں، اگر انہوں نے مذاکراتی عمل کو تسلیم نہ کیا تو پھر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ شخصی ضمانت دی جائے کہ عمران خان مذاکراتی عمل کو تسلیم کریں گے۔
مبصرین کے مطابق مذاکراتی عمل بارے حکومت کے عمران خان بارے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں کیونکہ عمران خان کا ماضی اور حال اس بات کا عکاس ہے کہ وہ اپنے بیانات اور وعدوں سے پھرتے ہوئے بالکل دیر نہیں لگاتے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اپنی دوغلی پالیسی کی وجہ سے اعتماد کھو چکے ہیں۔ اس کے حالیہ مثال دیکھیں کہ ایک طرف پی ٹی آئی رہنما عمران خان کی ہدایات کے مطابق مذاکرات کیلئے حکومت کے ترلے کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب عمران خان حکومت کو سول نافرمانی کی دھمکیاں دینے سمیت مختلف دعوے کرتے ہوئے للکارتے نظر آتے ہیں۔ 16 دسمبر کو جیل میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی پہلے دن کی طرح اپنے مؤقف پر قائم ہیں جبکہ شہباز حکومت خوف کے سہارے پر قائم ہے، جس روز یہ خوف ختم ہوگیا یہ حکومت تنکوں کی طرح بکھر جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ناجائز حکومت سے بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ حکومت کے سامنے قطعا نہیں جھکیں گے۔ مبصرین کے مطابق اب ایسے میں سوال پیداہوتا ہے کہ عمران خان کے دوغلے رویے کی وجہ سے پتا نہیں چلتا کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں وہ گریبان پر بھی ہاتھ ڈال رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے انھوں نے پاوں بھی پکڑ رکھے ہیں۔
شاید اسی وجہ سے وفاقی وزیر دفاع نے خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو’ مذاق رات‘ قرار دے دیا ہے۔وفاقی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ تمام کارڈز ناکام ہونے کھ باوجود ابھی بھی تحریک انصاف کی زبان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حالانکہ مذاکرات کرنے ہوں تو زبان کو خاموش اور لہجے کو نرم رکھنا پڑتا ہے، حکومت سے مذاکرات کا آغاز بانی پی ٹی آئی عمران خان کو خود کرنا چاہیے کیونکہ عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف میں کسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔
تاہم مبصرین کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی میں باہمی عدم اعتماد کی وجہ سے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں۔ تاہم پھر بھی سیاسی قوتیں جب ساتھ بیٹھ کر بات کر لیتی ہیں تو مسئلے کا حل کہیں نہ کہیں نکال لیتی ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کو سب سے زیادہ ان کی زبان درازی نقصان پہنچا رہی ہے۔ کیونکہ جیسے ہی حکومت یا مقتدر حلقوں سے پی ٹی آئی کے معاملات بہتر ہونے لگتے ہیں عمران خان کوئی ایسی ٹوئٹ یا بیان داغ دیتے ہیں جس سے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔
مبصرین کے مطابق عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تو بنا دی ہے تاہم وہ اتنی بااثر دکھائی نہیں دے رہی، کمیٹی حکومت سے مذاکرات کیلئے ترلے تو کر رہی ہے مگر حکومت مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کے لیے ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اسی لئے حکومت مذاکرات کمیٹی سے پیشگی گارنٹی کا مطالبہ کر رہی ہے تاکہ عمران خان بعد میں اپنی باتوں سے مکر نہ پائیں۔