مدینہ مسجد کراچی کی مسماری بارے علما منقسم کیوں؟

ایک پبلک پارک کی زمین پر غیر قانونی طریقے سے تعمیر کردہ کراچی کی مدینہ مسجد کو مسمار کرنے کے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے علما کی رائے منقسم نظر آتی ہے۔ بعض کے نزدیک سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت کے عین مطابق ہے جبکہ بعض اس فیصلے کو غیر شرعی اور غیر قانونی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک مدینہ مسجد تمام قانونی ضابطے پورے کرنے کے بعد قائم کی گئی ہے۔

مقامی افراد اور مدینہ مسجد کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لئے تمام قانونی تقاضے پورے کے گیے لہٰذا یہ غیر قانونی تعمیرات یا تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ یہ لوگ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپنا موقف ثابت نہیں کرسکے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مدینہ مسجد کی مسماری کے حکم کے حوالے سے دیوبند مکتب فکر کے سرخیل جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ چاہے کوئی مسجد غیر قانونی طور پر ہی کیوں نہ بنی ہو اسے کسی صورت گرایا نہیں جا سکتا۔ تاہم معروف عالم دین جاوید غامدی کا نکتہ نظر یہ ہے کہ قبضے کی جگہ پر مسجد سمیت کوئی بھی تعمیر جائز نہیں البتہ اگر علاقہ مکینوں کی اکثریت اس کے حق میں ہو تو عدالت کو ضرور عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔

کراچی کے علاقے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کو مسمار کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مساجد کی شرعی حیثیت زیر بحث آ گئی ہے، کہ آیا غیرقانونی زمین یا رفاہی پلاٹ پر بنائی گئی مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کرنے والے بینچ نے 28 دسمبر 2021 کو کراچی کے معروف کاروباری علاقے طارق روڈ پر واقع دل کشا پارک کی اراضی بحال کرانے کا حکم دیا تھا جہاں اس وقت مدینہ مسجد واقع ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق مدینہ مسجد کو جس 1100 گز زمین پر تعمیر کیا گیا ہے، وہ مفادِ عامہ کے حامل دل کشا پارک کی ہے لیکن مدینہ مسجد کے معاملے میں اب تک انتظامیہ کی جانب سے نوٹس جاری کرنے کے علاوہ مسجد کو گرانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے مدینہ مسجد کے کیس کی سماعت کے دوران مسجد کو مسمار کرنے کے اپنے حکم پر نظرِ ثانی کی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

مذہبی سکالرز اور علماء کے مطابق قبضہ کی گئی زمین پر مسجد بنانا شرعی طور پر جائز نہیں لیکن مدینہ مسجد کراچی کے حوالے سے علماء کا مؤقف ہے کہ چونکہ یہ زمین قبضہ کی گئی نہیں ہے لہذا اس پر شریعت کے اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مدینہ مسجد کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ دل کشا پارک کی زمین پر 1980 میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی جو ٹرسٹ کے زیرِ انتظام ہے، یہ ٹرسٹ مسجد کی بنیاد رکھنے کے دو برس بعد 1982 میں حکومتِ پاکستان سے رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔ مسجد کا انتظام سنبھالنے والے ٹرسٹ کے چیئرمین حافظ عبدالرحمٰن شاہجہان کا کہنا ہے کہ عدالت میں اپنا مؤقف پیش کیا تھا کہ تمام قانونی تقاضوں کے بعد مسجد تعمیر کی گئی تھی، ان کے بقول ہمارا مؤقف یہی ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے جسے گرایا نہیں جا سکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر کہتے ہیں کہ شریعت کا یہ اصول طے شدہ ہے کہ قبضے کی زمین پر مسجد تعمیر نہیں کی جا سکتی، لیکن مدینہ مسجد کی تعمیر کی قانونی دستاویزات موجود ہیں، متعلقہ اداروں نے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ جاری کیا اور نقشہ منظور کیا جس کے چالان بینکوں میں جمع کرائے گئے، اس لیے مدینہ مسجد پر قبضے کی زمین پر تعمیر کا اصول نافذ نہیں ہوتا۔ مفتی زبیر کے بقول ایسی مسجد جس کی تعمیر کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہوں وہ شرعی مسجد کے زمرے میں آتی ہے اور اسے مسمار کرنے کا حکم جاری کرنا خلافِ آئین و شریعت ہے۔

خضدار: سی ٹی ڈی کی کارروائی میں تین مبینہ دہشتگرد گرفتار

دوسری جانب مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ زمین کسی فرد کی ہو یا حکومت کی، اسے خلافِ قانون استعمال میں نہیں لایا جا سکتا، جاوید غامدی نے کہا کہ مسجد کی تعمیر کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو کوئی جگہ خرید کر اس پر مسجد تعمیر کی جائے یا حکومت سے اجازت لے کر مسجد بنائی جائے۔جاوید احمد غامدی نے واضح کیا کہ جگہ پر ناجائز قبضہ کر کے تعمیر کی گئی مسجد کو مسجد کہنا ہی دینی لحاظ سے جائز نہیں، اس لیے ایسی مسجد کو شہید کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامی کے پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی کہتے ہیں کہ آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست کا کام عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے، اگر کسی علاقے کے عوام یہ کہہ رہے ہوں کہ انہیں اس جگہ پر پارک نہیں مسجد کی ضرورت ہے تو جمہوری اصول کے مطابق یہ حق تسلیم کر لینا چاہئے۔جاوید غامدی کہتے ہیں کہ مدینہ مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کو مقامی لوگوں کی بات سننی چاہئے، سپریم کورٹ ملک کی آخری عدالت ہے اگر وہ انتظامی امور میں براہِ راست احکامات دے گی تو لوگ داد رسی کے لیے کہاں جائیں گے، ان کا کہنا ہے کہ مدینہ مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات میں طریقۂ کار پر تحفظات کا اظہار کیا جا سکتا ہے، لیکن دینی اعتبار سے اصول وہی رہے گا کہ زمین پر ناجائز قبضہ کر کے مسجد تعمیر نہیں کی جا سکتی۔

عدالت عظمیٰ مدینہ مسجد کے کیس کی مزید سماعت 13 جنوری کو دوبارہ کرے گی، گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ وہ مسجد گرانے کا حکم تو واپس نہیں لے گی، البتہ وہ اتنی مہلت دے سکتی ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے مسجد کو متبادل جگہ فراہم کرنے تک مسجد نہ گرائی جائے۔

Back to top button