امن اور اسلحہ ایک ساتھ نہیں بک سکتے

تحریر:وسعت اللہ خان۔۔۔بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
میری نسل کو امید تھی کہ سرد جنگ ختم ہو جائے گی تو جو کھربوں ڈالر امریکا اور سوویت یونین اسلحے کی دوڑ میں جھونک رہے ہیں ان میں سے اگر آدھے بھی بچا لیے گئے اور ان آدھوں میں سے آدھے بھی انسانوں پر خرچ ہو گئے تو سمجھو اس گولے کی بیشتر آبادی بھوک ، ننگ ، بیماری سے نجات پا جائے گی، مگر یہ آرزو پوری تو خیر کیا ہوتی الٹا گلے پڑ گئی۔
عالمی عسکری اخراجات پر نظر رکھنے والے موقر ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری ) کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس (انیس سو بائیس ) سالانہ فوجی اخراجات کا ہر پچھلا ریکارڈ ٹوٹ گیا اور کل ملا کے لگ بھگ ڈھائی ٹریلین ڈالر ( دو اعشاریہ چوبیس ) موت سے بچنے یا مارنے کے انتظامات پر جھونک ڈالے گئے۔
گذرے برس فروری میں یوکرین پر روسی چڑھائی کے بعد دونوں ریاستوں سے متصل ممالک کے فوجی اخراجات اچانک بہت اوپر چلے گئے۔مثلاً دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مسلسل غیر جانبدار ملک فن لینڈ نے نہ صرف ناٹو میں شمولیت کر لی بلکہ اپنے عسکری بجٹ میں چھتیس فیصد ، لتھوینیا نے ستائیس فیصد ، دو سو برس سے ناوابستگی پر کاربند سویڈن نے بارہ فیصد اور پولینڈ نے دفاعی خرچے میں گیارہ فیصد اضافہ کیا۔
یوکرین پر فوج کشی کے بعد روس کے عسکری بجٹ میں ایک ہی برس میں چونتیس فیصد تک اضافہ ہو گیا۔جب کہ یوکرین کے فوجی بجٹ میں اس ایک سال کے دوران چھ سو چالیس فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔جب سے سپری نے عالمی فوجی اخراجات پر سالانہ رپورٹ مرتب کرنا شروع کی ہے تب سے اب تک کسی بھی ملک نے ایک برس میں اپنے فوجی بجٹ میں اتنا اضافہ نہیں کیا جتنا یوکرین نے کیا۔
جب کہ عالمی دفاعی اخراجات میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ مشرقی ایشیا میں چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب علاقائی ممالک کا بڑھتا ہوا خوف بتایا جاتا ہے۔
اگر دو ہزار بائیس میں عالمی فوجی اخراجات سو روپے فرض کر لیے جائیں تو ان میں سے چھپن روپے صرف تین ممالک امریکا ، چین اور روس نے خرچ کیے۔ان چھپن روپے میں سے بھی انتالیس روپے صرف ایک ملک ( امریکا ) نے خرچ کیے۔
یہ اخراجات دوسرے نمبر پر آنے والے ملک چین کے فوجی بجٹ ( دو سو بانوے ارب ڈالر ) سے بھی تین گنا زائد تھے۔ان میں بیس ارب ڈالر کی وہ عسکری امداد اور اسلحہ بھی شامل ہے جو امریکا صرف ایک برس میں یوکرین کو فراہم کر چکا ہے۔
مشرقی ایشیا میں چین چونکہ گزشتہ اٹھائیس برس سے فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے لہٰذا اس کا قریب ترین روایتی حریف جاپان بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد فوجی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی کھڑکی سے باہر پھینک چکا ہے۔
امریکی جوہری چھتری میسر ہونے کے باوجود جاپان کو چین کی مسلسل بڑھتی طاقت اور شمالی کوریا کے ’’ ممکنہ پاگل پن ‘‘ سے ایک نفسیاتی خطرہ لاحق ہے۔چنانچہ دو ہزار بائیس میں جاپان نے دفاع کی مد میں چھیالیس ارب ڈالر خرچ کیے۔انیس سو ساٹھ کے بعد سے جاپانی دفاعی مد میں یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
دفاعی اخراجات کی مد میں بھارت چوتھا بڑا عالمی خرچیلا ہے۔اس نے سالِ گزشتہ کے دوران سالِ پیوستہ کے مقابلے میں چھ فیصد زائد رقم ( اکیاسی اعشاریہ چار ارب ڈالر ) خرچ کی۔ ایک بنیادی سبب چین کے ساتھ کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہے۔
سعودی عرب اسلحے کے خریداروں کی دو ہزار بائیس کی عالمی فہرست میں پانچویں نمبر پر رہا۔اس کے دفاعی بجٹ ( پچھتر ارب ڈالر ) میں گزشتہ برس سولہ فیصد اضافہ ہوا۔البتہ یمن میں خانہ جنگی کے ممکنہ خاتمے اور ایران سے کشیدگی میں کمی کے سبب قوی امید ہے کہ رواں اور اگلے برس سعودی دفاعی اخراجات میں بھی قدرے تخفیف ہو گی۔ویسے بھی ولی عہد محمد بن سلمان کو ویژن دو ہزار تیس کی تعبیر کے لیے اضافی پیسہ چاہیے۔
سعودی عرب کے بعد دفاعی اخراجات میں علی الترتیب برطانیہ ، جرمنی ، فرانس ، جنوبی کوریا ، جاپان ، یوکرین ، اٹلی ، آسٹریلیا ، کینیڈا اور اسرائیل کا درجہ ہے۔
البتہ مجموعی دفاعی اخراجات کے برعکس محص اسلحے کی فروخت و خریداری کی فہرست اگر مرتب کی جائے تو پھر درجہ بندی میں خاصا رد و بدل نظر آتا ہے۔
مثلاً دو ہزار بائیس میں سب سے زیادہ اسلحہ علی الترتیب قطر ، بھارت ، یوکرین ، سعودی عرب ، کویت ، پاکستان، جاپان ، ناروے ، امریکا اور اسرائیل نے خریدا۔جب کہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک میں سرِفہرست علی الترتیب امریکا ، فرانس ، روس ، چین ، اٹلی، جرمنی ، برطانیہ ، اسپین ، اسرائیل اور پولینڈ رہے۔
بر سبیلِ تذکرہ دو ہزار بائیس میں اسلحے کی خریداری کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا ملک بھارت ایک سو اکیانوے ممالک پر مشتمل اقوامِ متحدہ کی انسانی ترقی کی انڈیکس میں ایک سو بتیسویں نمبر پر اور اسلحے کی خریداری کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا اہم ملک پاکستان انسانی ترقی کی انڈیکس میں ایک سو اکسٹھویں نمبر پر ہے۔