SECP ڈیٹا لیک، عاصم باجوہ کی کمپنی کی وجہ سے انکوائری شروع ہوئی؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوہ کے کاروبار سے متعلق ڈیٹا لیک ہونے کے معاملے میں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کو ادارے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے خلاف کارروائی کو روکتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ شیئر ہولڈنگ کی معلومات پبلک کرنا کیسے خفیہ اور حساس معاملہ بن گیا؟ کیاعاصم باجوہ کی کمپنی کی وجہ سے انکوائری شروع ہوئی؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ارسلان ظفر کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے ایس ای سی پی کو اُن کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے آئندہ سماعت تک روکنے کا حکم دے دیا ہے. چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق فوجی افسر کے معاملے پر ایس ای سی پی کے متحرک ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارہ آزاد نہیں ہے اور خود اپنی شرمندگی کا سامان فراہم کر رہا ہے۔
ہفتہ کو جب چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایس ای سی پی کے افسر ارسلان ظفر کو ادارے کی جانب سے جاری ہونے والے شوکاز نوٹس کے خلاف دائر کردہ درخواست پر سماعت شروع کی تو ایس ای سی پی کے وکیل شاہد باجوہ بغیر نوٹس کے عدالت کے سامنے پیش ہو گئے۔
یاد رہے کہ ایس ای سی پی نے چند روز قبل پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے سربراہ اور معاونِ خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ کی کمپنیوں کی شیئر ہولڈنگ کی تفصیلات مبینہ طور پر شیئر کرنے کے الزام اپنے چند ملازمین کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ڈیٹا لیک کے معاملے پر ایس ای سی پی کے عہدیداران کو ارسال کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹسز کے خلاف درخواست کی سماعت میں ایس ای سی پی عہدیداران کی موجودگی پر برہمی کا بھی اظہار کیا۔روایت کے برعکس ایس ای سی پی کے وکیل شاہد انور باجوہ بھی عدالت میں موجود تھے حالانکہ یہ درخواست کی ابتدائی سماعت تھی اور عدالت نے کمیشن کو کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو ابھی درخواست پر سماعت سے متعلق فیصلہ کرنا ہے اور ایس ای سی پی کے وکیل کی موجودگی کی ضرورت نہیں تھی انہوں نے وکیل سے اس ‘اسپیشل ٹریٹمنٹ’ کے پس پردہ وجہ کے بارے میں سوال بھی کیا۔جس پر وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل نے انہیں سماعت میں حاضری دینے اور عدالت کا نوٹس وصول کرنے کی ہدایت کی ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘آپ کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ ہم اس موقع پر ایس ای سی پی کو نوٹس بھیجیں گے’۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘اس طرز عمل سے درخواست گزار کی طرف سے ظاہر کردہ خدشات کی تصدیق ہوتی ہے.جب چیف جسٹس نے شاہد باجوہ کی عدالت میں موجودگی کے حوالے سے استفسار کیا تو شاہد باجوہ نے بتایا کہ وہ عدالتی نوٹس وصول کرنے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کیسے معلوم کہ یہ عدالت نوٹس کرے گی تو وکیل شاہد باجوہ بولے ایس ای سی پی نے ’کنفیڈنشل رپورٹ‘ لیک ہونے پر آٹھ ملازمین کو شوکاز نوٹس دیا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ایس ای سی پی اپنے رویے سے خود کو شرمندہ کر رہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کس (کمپنی) کی معلومات لیک کی گئیں جو معاملہ حساس بن گیا؟ ایس ای سی پی اپنے رویے سے معاملے کو مشکوک بنا رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ پہلے بتائیں یہ کمپنی کس کی ہے؟ ایس ای سی پی کے وکیل کی جانب سے جواب دیا گیا کہ یہ کمپنی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ عاصم سلیم باجوہ کی کمپنی ہے، اس وجہ سے انکوائری شروع کی گئی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ایس ای سی پی کا رویہ اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شیئر ہولڈنگ کی معلومات پبلک کرنا کیسے خفیہ اور حساس معاملہ بن گیا؟ایس ای سی پی کے وکیل بولے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے سربراہ اور معاونِ خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ کی کمپنیوں کی شیئر ہولڈنگ کی تفصیلات شیئر کی گئیں تھیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ایک موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق فوجی افسر کے معاملے پر ایس ای سی پی کے متحرک ہونے سے معلوم ہوتا ہے ادارہ آزادانہ کام نہیں کر رہاچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ریگولیٹر کی جانب سے معلومات پبلک کی جاتی ہیں، اس سے ہی احتساب ہوتا ہے، یقین ہے وزیر اعظم کو اس تمام معاملے سے باخبر رکھا گیا ہو گا۔‘عدالت نے ایس ای سی پی وکیل سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہر شخص کا احتساب ہو، مجھے یقین ہے یہ بات وزیراعظم کو پتہ نہیں ہو گی وہ تو احتساب چاہتے ہیں۔‘چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس ای سی پی اس کیس میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو چیز مسئلہ نہیں تھی اسے مسئلہ بنا دیا گیا۔ابھی آپ نے بہت کچھ بتانا ہے یہ پبلک انٹرسٹ کا معاملہ ہے، پچھلے پانچ سال میں پبلک ہونے والی دیگر رپورٹس پر ایس ای سی پی کی کتنی انکوائریاں ہوئیں۔ایس ای سی پی آئندہ سماعت تک ارسلان ظفر کے خلاف کارروائی نہ کرے، اور ارسلان ظفر شوکاز نوٹس کا جواب دیں۔عدالت کی جانب سے ارسلان ظفر کو شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ ایس ای سی پی کو نوٹس جاری کر کے 12 اکتوبر تک جواب جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button