پاکستان توڑنے میں امریکی سی آئی اے کا خفیہ کردار بے نقاب
امریکی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کے ہاتھوں تربیت حاصل کرنے والے تبت کے کمانڈوز پر مبنی سپیشل فرنٹیئر فورس نے 1971 کی جنگ میں بھارتی افواج کے ساتھ مل کر پاکستانی فوج کے خلاف باقاعدہ کردار ادا کیا تھا تاکہ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے شیخ مجیب کے مشن کی تکمیل کی جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی سی ائی اے نے یہ سپیشل کمانڈو فورس چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تشکیل دی تھی لیکن یہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی۔
یہ ہوشربا انکشاف معروف بھارتی صحافی پراوین سوامی نے بھارتی انگریزی اخبار دی ہندو میں اپنے ایک مضمون مین کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مئی 1971 میں انڈیا کے آرمی چیف نے جنرل آفیسر کمانڈنگ، ایسٹرن کمانڈ کو ایک خفیہ حکم دیا جس سے ایک ایسی مہم کا آغاز ہوا جس کا خاتمہ پاکستان کے مشرقی حصے کی علیحدگی پر ہونا تھا۔ پراوین سوامی کے مطابق اس خفیہ حکم کو ’آپریشن انسٹرکشن 52‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے ذریعے انڈیا کی افواج کو باضابطہ طور پر حکم دیا گیا کہ وہ ’بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کی آزادی کی تحریک کی مدد کریں‘ اور ’مشرقی بنگال میں گوریلا کارروائیوں کے لیے لوگوں کو اسلحے سے لیس کریں اور پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کی تربیت دیں۔
سوامی کے مطابق بھارتی ایسٹرن کمانڈ کو یقینی بنانا تھا کہ گوریلا فورسز ’مشرقی بنگال میں پاکستانی فوجی دستوں کو حفاظتی کاموں میں الجھائیں‘، ’مشرقی میدانِ جنگ میں پاکستانی افواج کے حوصلے پست اور کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آسام اور مغربی بنگال کے خلاف کسی بھی جارحیت کے لیے ان کی لاجسٹک صلاحیت کو مسدود کریں‘، اور آخر کار ’پاکستان کی ہمارے خلاف جنگ چھیڑنے کی صورت میں‘ وہ باقاعدہ انڈین فوج کے شانہ بشانہ استعمال کی جائیں۔
’ان احکامات کو عملی جامہ پہنانے کا کام سوجن سنگھ اُوبن پر آن پڑا۔ بریگیڈیئر اُوبن ایک آرٹلری افسر تھے جنھیں سپیشل فرنٹیئر فورس یا ایس ایف ایف کی قیادت کے لیے چنا گیا تھا۔ یہ ایک خفیہ فوج تھی جسے امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کی مدد سے تبت میں چینی افواج پر حملوں کے لیے تشکیل کیا گیا تھا۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق تبت، چین اور انڈیا کے موضوعات پرلکھنے والے فرانسیسی نژاد مصنف کلاڈ آرپی نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں انڈیا کے وزیر اعظم جواہرلال نہرو کے ان دو خطوط کا حوالہ دیا ہے جن میں انھوں نے چین کے خلاف 1962 کی جنگ میں امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔ آر پی نے ڈی کلاسیفائی کی گئی امریکی دستاویزات اور کینتھ کونبوائے اور جیمز موریسن کی کتاب ’دی سی آئی اے سیکرٹ وار ان تبت‘ کے حوالوں سے امریکی اعلیٰ حکومتی اور سی آئی اے عہدیداروں کی انڈیا کی انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بی این ملک اور دیگر اہلکاروں سے ملاقات کی تفصیل لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’امریکی عہدیداروں سے یہ وعدہ لینے کے بعد کہ ہماری انڈیا کی اس میں شمولیت ہمیشہ خفیہ رکھی جائے گی‘، ’سی آئی اے اور آئی بی نے کام کی تقسیم پر اتفاق کیا۔ سی آئی اے کی مدد سے آئی بی پانچ ہزار افراد پر مشتمل ٹیکٹیکل گوریلا فورس کو تربیت فراہم کرنے کا منصوبہ بنا۔
تب یہ بھی طے ہوا تھا کہ سی آئی اے کا فار ایسٹ ڈویژن تبت کے اندر طویل فاصلے تک مزاحمتی تحریک پیدا کرے گا اور شمالی نیپال میں تبتی آزادی کے جنگجو سی آئی اے کے تحت رہیں گے۔ لیکن آرپی لکھتے ہیں کہ سی آئی اے کے ساتھ یہ ’ہنی مون‘ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور تبتی فورس بالآخر سوجن سنگھ اوبن کی نگرانی میں چلی۔ ایس ایس ایف کو بعد میں ’اسٹیبلشمینٹ 22‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔
تاہم پراوین سوامی کے مطابق ’ایس ایس ایف یا سپیشل فرنٹیئر فورس پہلے انڈیا کی بیرونی خفیہ سروس، ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ، یا ’را‘ کے مسلح ونگ کے طور پر کام کرتی رہی لیکن یہ چین میں کبھی نہیں لڑی۔ 1962 میں قائم ہونے اور سی آئی اے سے تربیت پانے والی اس تنظیم کو ستمبر 1967 میں باقاعدہ طور پر انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے حوالے کر دیا گیا اور بعد میں انھیں مشرقی پاکستان میں استعمال کیا گیا۔سوامی کے مطابق ’جولائی 1971 میں انڈیا کی جنگی تاریخ کے مطابق پہلے بے قاعدہ دستوں کو مداری پور سے سرحد پار درانداز کروایا گیا۔ 110 گوریلوں کے اس پہلے گروپ نے چائے کے باغات، دریا کی کشتیوں اور ریلوے ٹریکس کو تباہ کیا۔ یہ ایسی کارروائیاں تھیں جنھوں نے فوجیوں کو الجھا دیا، مشرقی پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا اور ڈھاکہ، کومیلا اور چٹاگانگ کے درمیان مواصلات کو تباہ کر دیا۔‘
پراوین سوامی لکھتے ہیں کہ ’ستمبر 1971 تک انڈین تربیتی کارروائیوں میں ڈرامائی توسیع ہو چکی تھی اور ہر ماہ 20 ہزار گوریلوں کو تیار کیا جانے لگا۔ 10 کیمپوں میں ہر 100 تربیت پانے والوں کے ساتھ آٹھ انڈین فوجی پابند تھے۔ سی کرسٹین فیئر نے اپنی کتاب ’فائٹنگ ٹو دی اینڈ‘ میں لکھا ہے کہ ’نومبر 1971 کے آخر تک 83 ہزار سے زیادہ جنگجوؤں کو تربیت دی جا چکی تھی، جن میں سے 51 ہزار مشرقی پاکستان میں کام کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسا گوریلا آپریشن تھا جو شاید اس وقت تک سب سے بڑا تھا لیکن پاکستان کو اس کے بارے میں کانو کان خبر نہ ہو سکی۔‘ ان جنگجوؤں کے علاوہ، انڈیا نے 1800 کمانڈو مشرقی پاکستان کے چٹاگانگ پہاڑی علاقے میں بھیجے۔ یہ لوگ ایس ایف ایف کا حصہ تھے اور تبت کے مہاجرین تھے جو دلائی لامہ کی بے قاعدہ افواج کے شانہ بشانہ پچاس کی دہائی کے نصف سے لڑ رہے تھے۔‘
سوامی لکھتے ہیں کہ ’چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں، بریگیڈیئر اوبن نے سی آئی اے کے تربیت یافتہ تبت کے کمانڈوز کو بھیجا جنہوں نے پاکستانی فوج کو کم درجے کی سرحدی جھڑپوں میں مصروف رکھا۔‘ نومبر 1971 میں مشرقی پاکستان میں اس جنگ ہی نے پاکستان کو دباؤ کم کرنے کے لیے تین دسمبر کو بڑے انڈین فضائی اڈوں پر حملے کرنے پر مجبور کیا۔‘ سوامی لکھتے ہیں کہ تین دسمبر 1971 سے بریگیڈیئر اُوبن کی فورس نے تخریب کاری اور ایذا رسانی کی ایک غیر معمولی مہم شروع کی۔ امریکی سی ائی اے کی تربیت یافتہ سپیشل فرنٹئیر فورس نے نے 56 افراد کی ہلاکت اور 190 زخمیوں کی قیمت پر کئی اہم پلوں کو تباہ کیا اور اس نے یقینی بنایا کہ پاکستان کی 97 انڈیپینڈنٹ بریگیڈ اور کریک ٹو کمانڈو بٹالین چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں پھنسی رہیں۔
1971 کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے بعد بھارتی حکومت نے سپیشل فرنٹیئر فورس کے 580 ارکان کو نقدی، تمغوں اور انعامات سے نوازا لیکن خفیہ ہونے کی وجہ سے ان کے آپریشنز کی مخصوص تفصیلات دستیاب نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سپیشل فورس نے پاکستانی فوجیوں کو الجھانے اور ان کی لاجسٹک ریڑھ کی ہڈی کو مفلوج کرنے کا کام کیا۔