خود کو ڈوبتا دیکھ کر عمران امپائر کو بھی ڈبو سکتے ہیں؟
اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں افواہیں گردش میں ہیں کہ اگر وزیراعظم عمران خان کو اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا اندازہ ہوگیا تو وہ گھر جانے سے پہلے "ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے” ٹائپ واردات ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں جسکے نتیجے میں امپائر کی بھی چھٹی ہو سکتی یے۔
بتایا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی توڑنے کے اختیار سے محروم ہوچکے ہیں لیکن فرسٹریشن کا شکار ہو کر وہ اب بھی کوئی مس ایڈونچر کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران ماضی قریب میں کئی بار یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر مجھے نکالنے کی کوشش کی گئی تو میں خطرناک ہو جاؤں گا۔ اس دوران اسلام آباد میں ایسی افواہیں بھی سننے میں آئیں کہ وزیراعظم نے فوجی بڑوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے ان کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے اور جو ادارے غیر سیاسی ہونے کے دعوے کر رہے ہیں وہ اب انکے خلاف سیاست میں ملوث نظر آتے ہیں۔
عمران خان کے قریبی ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ وہ نوازشریف یا آصف زرداری کی طرح روایتی سیاست دان نہیں ہیں جو خاموشی سے اپنی حکومت الٹنے کا انتظار کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنی خطرناک طبیعت کے عین مطابق کھیل آخری اوور میں داخل ہو جانے کے بعد کپتان آخری بال پر کریز سے باہر نکل کر ایک لمبا چھکا مارنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جو شاید اسٹیڈیم سے بھی باہر جا گرے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کپتان نے ایسا چھکا لگا دیا تو حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو سکتی ہے اور عمران اپنا اقتدار بھی بچا سکتے ہیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد وزیراعظم کو ہر طرح کے مشورے دیے جارہے ہیں لیکن آخری فیصلہ وہ خود کریں گے۔ تاہم عمران خان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ تُرپ کا ایک پتہ اب بھی ان کے پاس باقی ہے جو آخری لمحے میں سارے کھیل کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ کپتان کے اتحادی پرویز الٰہی نے وزیر اعظم کو پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ اس سے قبل کہ دیر ہوجائے، وہ ’’بڑا فیصلہ‘‘ لے لیں۔ پرویز الٰہی نے واضح نہیں کیا کہ یہ بڑا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے لیکن ان کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ یہ ایک انتظامی نوعیت کا فیصلہ ہے جو پالیسیوں کے تسلسل کیلئے ضروری ہے۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد لگتا ہے کہ بڑا فیصلہ لینے کا وقت گزر چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کپتان کے ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی اور اب بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
عمران خان کیلئے سیاسی مشکلات سنگین تر ہو چکی ہیں کیونکہ اب ان کا مقابلہ اپوزیشن، ناراض اتحادیوں اور حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی گروپ کیساتھ بھی ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ عمران خان ملک کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں یا تو اقتدار سے بے دخل ہو جائیں گی یا خود ہی استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں گے۔ اپوزیشن حلقے یاد دلاتے ہیں کہ ماضی میں جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپنی اپوزیشن کی تحاریک عدم اعتماد ناکام بنائیں تو اسکی وجہ یہ تھی کہ انکے تمام ساتھی انکے ساتھ کھڑے رہے جبکہ عمران خان کی تحریک انصاف میں بڑی دراڑ پڑ چکی ہے۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس پی ٹی آئی کے 20 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت موجود ہے جبکہ ترین علیم گروپ نے مذاکرات کیلئے عثمان بزدار کو ہٹانے کی شرط رکھ دی ہے۔ عمران اب بھی عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے تیار نہیں اور اپنی پارٹی کے ناراض عناصر کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
عمران نے نہ صرف ناراض ارکان اسمبلی سے خود بات کرنا شروع کر دی ہے بلکہ اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو بھی ذمہ داری دی ہے کہ ترین اور علیم کو قائل کیا جائے تاکہ وہ اپوزیشن کا ساتھ نہ دیں۔ تاہم اب ترین علیم دھڑا عمران سے مذاکرات کرنے کے موڈ میں نہیں اسی لئے علیم خان ترین سے ملاقات کیلئے لندن روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ اپنا اگلا لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔
برسوں سے عمران کی بھرپور مالی اور سیاسی معاونت کرنے والے جہانگیر ترین اور علیم خان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ کپتان کے ایما پر بد ترین سلوک کیا گیا جو کہ احسان فراموشی کے مترادف تھا لہذا اب بدلہ لیا جائے گا۔
دوسری جانب اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے والی کپتان کی موقع پرست اتحادی جماعتیں بھی ان کا ساتھ چھوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ ق لیگ کے لیڈر چوہدری شجاعت بیماری کے باوجود لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر مااقات کی۔ اطلاع ہے کہ عمران کے اقتدار کی کشتی کو ڈوبتا دیکھ کر اب گجرات کے چوہدری بھی اپوزیشن کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔
ساس بہو اور نند بھابھی کے مثبت چہروں والا ڈرامہ “عشقِ لا”
دوسری جانب قومی اسمبلی میں تحریک جمع کرائے جانے کے بعد وزیراعظم نے اٹارنی جنرل خالد جاوید سے ملاقات کرکے دستیاب قانونی راستوں پر مشورہ کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے آئین کی رو سے حکومت کو اسمبلی کا سیشن بلانا پڑے گا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانا ہوگی۔ کسی بھی طرح کی تاخیر یا رکاوٹ ڈالنے کی کوشش معاملے کو سپریم کورٹ تک لیجا سکتی ہے جو حکومت کیلئے باعث ہزیمت ثابت ہوگا۔
ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو کسی قسم کا مس ایڈونچر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کپتان فیصلہ کرنے پر آتے ہیں تو کسی کی نہیں سنتے، لہذا وہ فرسٹریشن میں خطرناک ہو کر کوئی بھی واردات ڈال دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Seeing himself drowning can Imran drown the umpire too? Urdu