انتخابات کے بروقت انعقاد میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟

تمام تر دعوؤں اور اعلانات کے برعکس ملک میں عام انتخابات کا بروقت انعقاد ناممکن نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کا انعقاد نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہو گا، الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں اور الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے۔دوسری جانب لگ بھگ دو ہفتے قبل ہی وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے بڑے واضح انداز میں کہا تھا کہ الیکشن پرانی یعنی 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اس اعلان سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ آخر دو ہفتے کے دوران ایسی کیا تبدیلیاں آئی ہیں یا ایسے کیا حالات ہوئے کہ حکومت کو پرانی مردم شماری کی بجائے نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کے انعقاد کی ضرورت پڑ گئی۔ اگر نئی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوتے ہیں تو کیا اِن کا انعقاد وقت پر ممکن ہو پائے گا؟ بظاہر ایسا ممکن نہیں لگتا کہ نئی مردم شماری کے تحت الیکشن نوے دِن کے اندر ہوں پائیں تو کیا ایسی صورت میں نگران حکومت نوے دِن سے آگے چلی جائے گی؟ کیا آئینی طور پر یہ ممکن ہو پائے گا کہ نگراں حکومت کی مدت کو بڑھایا جائے؟

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ انھیں وزیرِ اعظم کے مذکورہ بیان سے حیرانی ہوئی۔’شاید مسلم لیگ نون کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ فوری انتخابات اُن کے مفاد میں نہیں۔ نئی مردم شماری کے مطابق آٹھ نو ماہ کے اندر الیکشن ممکن نہیں ہو پائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا دباؤ بھی ہے۔ اگرچہ اس دباؤ کا کوئی فوری سیاسی مقصد نہیں ہوسکتا لیکن گذشتہ دِنوں ایم کیوایم کے وفد نے بھی ملاقات کی اور ایک طرح سے معاہدہ بھی تھا کہ نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن ہوں گے۔‘

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی  کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف فوری الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتیں۔’یہ دونوں پارٹیاں الیکشن کو تاخیر کی طرف لے جانا چاہتی ہیں۔ اس لیے اس طرح کا بیان دیا گیا۔ یہ عمران خان کی پارٹی سے خائف بھی ہیں۔‘

سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ اگر زمینی حقائق دیکھیں تو کوئی پارٹی بھی الیکشن کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔’اگر تحریکِ انصاف کا ووٹ بینک موجود ہے تو دوسری جماعتوں کے امیدوار اس قدر مضبوط نہیں کہ تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو توڑ سکیں۔ اس وقت حکومت کی مدت ختم ہونے جا رہی ہے مگر اس کے باوجود الیکشن کی فضا بنتی نظر نہیں آ رہی۔‘

اب سوال یہاں یہ ہے کہ اگر نئی مردم شماری کی منظوری ہوتی ہے اور اس کے تحت الیکشن ہوتے ہیں تو کیا یہ مقررہ وقت پر ہو سکیں گے؟احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ وقت پر الیکشن کا انعقاد سوالیہ نشان بن چکا ہے ’لیکن ہاں اگر آنے والے دنوں میں کسی کیس میں عمران خان کی گرفتاری ہو جاتی ہے اور گرفتاری کے بعد کے حالات بھی قابو میں رہتے ہیں تو شاید دوسری جماعتیں جلد الیکشن کی طرف چلی جائیں، ورنہ الیکشن کا مقررہ وقت پر ہونا مشکل ہے۔حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں جبکہ دیگر اتحادی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں۔

سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اگر نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں شروع ہو جاتی ہیں تو پھر الیکشن کا انعقاد نوے دن کے اندر نہیں ہو پائے گا یعنی اگر یہ نومبر میں ہونے ہیں تو پھر 15 جنوری کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہو سکے گا۔

تاہم سلمان غنی اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری ذمہ دارانہ رائے یہ ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہو کر رہے گی۔انھوں نے مزید کہا کہ ’کیا محض مسلم لیگ نون الیکشن میں تاخیر چاہتی ہے؟ ایسا نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوں کیونکہ اُن کے اُمیدوار اس وقت اپنے حلقوں کے اندر موجود نہیں۔ کچھ لوگ سزائیں کاٹ رہے ہیں، کچھ روپوش ہیں۔ مجھے یہ الیکشن فروری مارچ سے پہلے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔‘

خیال رہے کہ چند دن بعد موجودہ حکومت کی مُدت پوری ہو رہی ہے اور حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ اسمبلی اپنی مقررہ وقت سے پہلے تحلیل کر دی جائے گی اور نگراں حکومت آ جائے گی لیکن اگر الیکشن تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں تو نگران حکومت کی مُدت بھی بڑھ جائے گی تو کیا اس سے آئینی بحران پیدا نہیں ہو جائے گا؟اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے دلچسپ تبصرہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتیں کئی ماہ سے موجود ہیں، اس سے حکومت کا آئینی جھاکا کھل چکا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ جس طرح پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومتوں کی مدت میں توسیع ہوئی، اسی طرح یہاں بھی ایسا ہی ہو گا۔

تاہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے تو کیا اس کے لیے الیکشن کمیشن تیار ہے اور وہ مقررہ مدت کے اندر الیکشن کروا پائے گا؟کنوردلشاد کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے نئی مردم شماری کے مطابق جو عندیہ دیا، وہ آئین اور قانون کے مطابق درست ہے۔’اگر مشترکہ مفادات کونسل اپنےاجلاس میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے تمام نتائج حاصل ہو چکے ہیں، اس کا گزٹ نوٹیفکیشن کر دیا جاتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 51 کی ذیلی دفعہ 5 کے تحت ازسرنو حلقہ بندیاں کروانا ہوں گی اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کا شیڈول جاری ہوگا۔‘کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن چار مہینے کے دوران حلقہ بندیاں کروا پائے گا اور اس سے زیادہ جلدی شاید ممکن نہیں ہو پائے گا۔

تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’جب رانا ثنا اللہ نے یہ بیان دیا تھا کہ الیکشن پرانی مردم شماری کے مطابق ہوں گے تو اُس وقت میری الیکشن کمیشن کے ذمہ دارترین اہلکار سے بات ہوئی تھی اور اُن کا کہنا تھا کہ جب ہم نے الیکشن کا فیصلہ کرنا ہے کہ کس مردم شماری کے مطابق ہوں گے تو اُس وقت رانا ثنا اللہ وزیرِ داخلہ نہیں ہوں گے

کترینہ، ایشوریہ، کرینہ اور عالیہ بھی ’باربی‘ بن گئیں

۔

Back to top button