جنیوا کانفرنس میں سیلاب متاثرین کیلئے16.3 ملین ڈالر کی اپیل

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک کی جانب سے تعاون پر شکر گزار ہیں لیکن بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں،سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے 1.63 ملین ڈالر درکار ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر جنیوا میں ہونے والی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس میں پاکستان کے لوگوں کے احساسات آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں، جس طرح آپ نے ان سیلاب متاثرین کے لیے آواز بلند کی ہے، ان کے مسائل کو مؤثر انداز میں روشناس کرایا ہے، 10 ستمبر میں آپ (انتونیو گوتریس) اور وزیر خارجہ کے ہمراہ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا، اس دوران آپ نے یتمیوں، بیواؤں سے بات کی تھی، اسی طرح یونیسیف کی جانب سے عارضی اسکول چلایا گیا، اس کو پاکستان کے عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
انکا کہنا تھا کہ میں بہت سارے ممالک کی حکومتوں، وزرا اور دیگر شراکت داروں کا شکر گزار ہیں، جنہوں نے آج اس کانفرنس میں شرکت کی ہے، ہم تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑے ہیں، ایونٹس ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے آ رہے ہیں، اب سوال صرف یہ نہیں ہے کہ کیسے زندہ رہنا ہے؟ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اپنے جسم کو برقرار رکھیں، سوال ہے کہ اپنے وقار کو کیسے بحال رکھیں؟ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، اور 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جس میں بچے بھی شامل تھے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ تباہ کن سیلاب سے 8 ہزار کلو میٹر روڈ تباہ ہوگئے، ہزاروں اسکول متاثر ہوئے، جس کی وجہ سے 26 لاکھ طلبہ تعلیم سے مرحوم ہو گئے جس میں 10 لاکھ بچیاں بھی شامل ہیں،اقوام متحدہ، عالمی بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)، اے آئی آئی بی، یورپین یونین سمیت دیگردوست ممالک کی جانب سے دی گئی سپورٹ کرنے پر شکر گزار ہیں، بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں، سندھ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع میں اب بھی سیلاب کا پانی کھڑا ہے، سیلاب کا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار، گھروں اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر نہیں کی جاسکتیں، ہمیں سیلاب سے متاثرہ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو ان کا مستقبل واپس لوٹانا ہے، ان افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے، انہیں واپس زندگی کی طرف آنا ہے اور روزگار حاصل کرنا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج کی کوشش بھی ہمارے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑنے ہونے کا ایک اور موقع دینا ہے، گزشتہ اکتوبر میں ہم نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ سیلاب کے نقصانات کا تخمینہ لگایا تھا، جو 30 ارب ڈالر سے زائد کے ہو چکے ہیں، یہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 8 فیصد بنتا ہے، جس نے 90 لاکھ کو شدید غربت میں دھکیل دیا ہے، پاکستانی قوم اور ریاست نے اس تباہی کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے، جن کے وسائل کم ہیں، انہوں نے بھی آگے بڑھ کر ان کی مدد کی ہے، جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20 ہزار فوجی جوان اور سیکڑوں ہیلی کاپٹرز اور موٹر بوٹس بحالی آپریشن کے لیے 24 گھنٹے متحرک رہے، ہمیں مشرق وسطی، یورپ، فار ایسٹ اور دنیا کے دیگر ممالک کا بھی ساتھ رہا، انہوں نے ہزاروں زندگیوں کو بچایا، ہم نے ایک سبق سیکھا ہے کہ کچھ بھی معمول کے مطابق واپس نہیں آسکتا، ہمیں مسلسل مشکل فیصلے کرنے ہیں، میں اس بات سے واقف ہوں کہ سخت ترین اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان کے لوگوں کی زندگیاں مزید مشکل ہو جائیں گی، بحران سے بحالی کے لیے فنڈنگ کا گیپ بہت زیادہ ہے، پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیلی ہوچکی ہے، ہماری حکومت نے تعمیر نو اور بحالی کے لیے جامع منصوبہ تشکیل دیا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آر ایف منصوبے کا پہلا حصہ بحالی اور تعمیر نو کی ترجیحات کے بارے میں ہے، ہمیں کم از کم 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے، جس میں سے آدھے ملکی وسائل سے جبکہ دیگر نصف ہمارے ترقیاتی شراکت داروں اور دوستوں سے لینے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، فنڈنگ گیپ 8 ارب ڈالر کا ہے، جس کی ہمیں 3 سال کے عرصے میں ضرورت ہو گی، اگر یہ بحالی میں فنانسنگ گیپ مسلسل رکاوٹ رہا تو اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے، میں بحالی منصوبے کے لیے آپ لوگوں کی سپورٹ حاصل کر رہا ہوں، مجھے پتا ہے موجودہ دور میں بہت سے ممالک کو معاشی مشکلات درپیش ہیں، پاکستان کو نئے اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی جان بچائی جاسکے۔
شہبازشریف کا کہنا تھا کہ آج میں آپ سے ان لوگوں کے لیے مدد چاہتا ہوں، جن کی زندگی کی جمع پونجی ختم ہو چکی ہے، سیلاب متاثرین سخت سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اور آپ کی امداد کے منتظر ہیں، ہم مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی اور ان کے خوابوں کو پورا کرنا ہوگا۔
عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ برس پاکستان نے مون سون بارشوں کے سبب بدترین سیلاب کا سامنا کیا، یہ قدرتی آفات کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والی تاریخی تباہ کاری تھی، جب بارشوں کا سلسلہ تھما تو ملک کے بیچوں بیچ 100 کلو میٹر طویل ندی بن چکی تھی، اس قدرتی آفت سے ہر 7 میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا، یہ تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ بنتی ہے جن میں ہزاروں بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، پاکستان کے کئی علاقے تاحال زیر آب ہیں، ہمارے ریلیف آپریشنز جاری ہیں اور ہم بحالی اور تعمیر نو کے اقدمات کے لیے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس کانفرنس میں شرکا کا استقبال کرتے ہیں جہاں عالمی دنیا پاکستان کو سیلاب کے سبب درپیش مسائل کے ادراک کے لیے ایک جگہ جمع ہوئی ہے، عالمی دنیا کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر امداد اور تعاون فراہم کرنے پر ہم دنیا کے شکرگزار ہیں، سیلاب زدہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہم بحالی کے لیے پائیدار اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں، حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ، عالمی بینک اور یورپی یونین سمیت عالمی اداروں کے ساتھ مل کر بحالی کے اقدامات کے لیے 4 اسٹریٹجک ریکوری مقاصد پر مشتمل ایک پالیسی فریم ورک تیار کیا ہے جو مستقبل میں بھی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پائیدار حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور پاکستان اور عوام اس صورتحال سے بذات خود نمٹنے کے لیے ہرممکن اقدامات کریں گے، مذکورہ فریم ورک کے نصف فیصد میں ہمارے اپنے وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، اس کے باوجود اس فراہم ورک کو لاگو کرنے کے لیے آنے والے کئی برسوں تک پاکستان کو عالمی شراکت داروں کے نمایاں تعاون کی ضرورت ہوگی، ہم اس صورتحال کو پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت سے بھرپور ملک بنانے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کے لیے عالمی برادری کی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے، ہم اس کانفرنس کو صرف ایک تقریب کے طور پر نہیں بلکہ ایک طویل شراکت داری کے آغاز کے طور پر دیکھتے ہیں، ہم آپ سب سے مخلصانہ اور مستقل تعاون کے عزم کی توقع کرتے ہیں۔
اس موقع پر سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے تمام شرکا کا شکر گزار ہوں، میں نے قدرتی آفات کے مقابلے میں پاکستان کے عوام کے مضبوط عزم اور ایثار کا بذات خود مشاہدہ کیا ہے، قدرتی آفات سمیت علاقائی تنازعات سے پاکستان آج بھی گھرا ہے، میں نے انہیں محدود وسائل کے باوجود افغان مہاجرین کا استقبال کرتے دیکھا۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ اس لیے میرا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب میں نے عظیم جذبے سے بھرپور پاکستان کے عوام کو سیلاب میں گھرا دیکھا، اس کے نتیجے میں اب تک 1700 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، 80 لاکھ لوگ بےگھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے 90 لاکھ لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا۔
کانفرنس کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا ہمیں اپنی جانب سے بھاری سرمایہ کاری اور کوششوں کے ذریعے پاکستانی عوام کے ایثار کی برابری کرنا ہوگی، پاکستان کو پائیدار طریقے سے دوبارہ تعمیر کے لیے 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی جبکہ مستقبل میں اسے بھی کہیں زیادہ کی ضرورت ہوگی، سماجی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، گھروں اور عمارتوں کی تعمیر نو، سڑکوں، پلوں، اسکولوں اور ہسپتالوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ ڈیزائن کرنا ہوگا۔
انتونیو گوتریس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کے لوگ قدرتی آفات اور عالمی مالیاتی نظام کے اخلاقی دیوالیہ پن کا دوگنا شکار ہوئے ہیں، یہ نظام درمیانی آمدنی والے ممالک کو قرضوں میں ریلیف اور قدرتی آفات کے خلاف پائیدار سرمایہ کاری کے لیے درکار رعایتی امداد سے روکتا ہے،لہٰذا ترقی پذیر ممالک کے لیے قرضوں میں ریلیف اور رعایتی فنانسنگ تک رسائی کے لیے منفرد حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے،ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو درپیش غیرمنصفانہ رویے کے ادراک کی ضرورت ہے، جانی و مالی نقصان کے حوالے سے کوئی شک ہے تو پاکستان چلے جائیں، موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں ایک حقیقت ہے۔
خطاب کے اختتام پر انتونیو گوتریس نے کہا کہ آج کی کانفرنس پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو کے طویل سفر کی جانب پہلا قدم ہے،سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ ہے اور اس اہم اور زبردست مشن میں اقوام متحدہ کا ہر اقدام پاکستانی عوام کی برداشت اور فراخدلی کا عکاس ہوگا۔
کانفرنس کے دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پاکستان کی امداد کے لیے ایک کروڑ ڈالر دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایمانوئیل میکرون نے کہا کہ ہم نے تصاویر میں دیکھا اور سنا کہ گزشتہ برس گرمیوں میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، تباہ کن سیلاب کے بعد پہلے دن سے ہنگامی صورتحال ہے، متاثرہ افراد نے کے لیے فرانس نے امداد بھیجی، اقوام متحدہ کی جانب سے کی گئی اپیل کا صرف 30 فیصد امداد اکٹھی ہوئی ہے، فرانس سیلاب متاثرین کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مزید ایک کروڑ ڈالر کی امداد دے رہا ہے۔
ایمانوئیل میکرون نے کہا کہ فرانس پاکستان کی سپورٹ کررہا ہے، ہم روزانہ کی بنیاد پر طویل المدت کے لیے مہارت اور مالیاتی سپورٹ فراہم کریں گے، ہم پاکستانی عوام کے ساتھ کندھے سے کندھے لگا کر کھڑے ہوں گے، میں ذاتی طور پر وزیراعظم پاکستان کو مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، پرامید ہوں کہ کانفرنس کےانعقاد سےپاکستان کو سیلابی تباہی سے بحالی میں مدد ملے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے زراعت ، لائیو سٹاک اور انفراسٹرکچر کو نقصان ہوا، متاثرہ علاقوں میں بچوں کی تعلیم کیلئے سکولزموجود نہیں، سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا، ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے اقدامات کیلئے مزید 16.3 بلین ڈالر کی ضرور ت ہے، ہم نے موجودہ وسائل سے کافی حد تک تک متاثرین کو ریلیف دیا، بحالی کیلئے لگائے گئے تخمینہ میں سے 50 فیصد پاکستان اپنے وسائل سے خرچ کرے گا، مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کرنیوالے ممالک کے شکرگزار ہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی تک کوشششیں جاری رکھیں گے۔
سعودی عرب کا پاکستان کیلئے ڈپازٹ 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر غور