وزارت عظمیٰ کیلئے شہبازشریف، شاہ محمود مدمقابل

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، جس کیلئے قومی اسمبلی جانب سے شیڈول جاری کیا جا چکا ہے، شیڈول کے مطابق قائد ایوان کے امیدواروں نے پیر کو دو بجے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں، جن کی جانچ پڑتال کا عمل تین بجے ہوگا۔

سابق اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو متفقہ طور پر وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا گیا ہے اور سابق صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، امین الحق، اسعد محمود، شاہدہ اختر علی، محسن داوڑ، علی وزیر، خالد مگسی، اسرار ترین، شاہ زین بگٹی، امیر حیدر ہوتی، خورشید شاہ، نوید قمر، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق سمیت کئی دیگر تائید و تجویز کنندگان کی جانب سے ایک درجن سے زائد کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے گئے ہیں۔

شہباز شریف کے مقابلے میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔وزیرِاعظم کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں نئے وزیرِاعظم اور قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کا طریقہ آئین اور قانون میں موجود ہے، جس کی روشنی میں یہ مرحلہ انجام دیا جاتا ہے۔
آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیراعظم منتخب ہونے کے لیے ایوان کے ارکان کی کل تعداد میں سے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 ہے جبکہ وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لیے 172 ارکان کے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔

قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب سپیکر کراتا ہے۔ سابق ایڈیشنل سیکریٹری قومی اسمبلی اور کئی وزرائے اعظم کے انتخاب کے مواقعوں پر ایوان میں خدمات انجام دینے والے طاہر حنفی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت قائد ایوان کو قومی اسمبلی میں موجود مجموعی اراکین کی تعداد کی اکثریت کے ذریعے منتخب کی جاتا ہے لیکن اگر کوئی امیدوار وزیراعظم کے انتخاب کے دوران درکار واضح اکثریت یعنی 172 ووٹ حاصل نہ کر سکے تو پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ انتخاب کرایا جاتا ہے۔ جس میں 172 ارکان کا ووٹ حاصل کرنے والا وزیر اعظم منتخب ہو جاتا ہے۔

ان کے مطابق رولز میں درج ہے کہ اگر دوسرے مرحلے میں بھی کوئی امیدوار 172 ووٹ حاصل نہ کر سکے تو تیسرا راؤنڈ کیا جاتا ہے جس میں ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت حاصل کرنے والا وزیراعظم منتخب ہو جاتا ہے۔طاہر حنفی کا کہنا ہے کہ ’قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں سپیکر ایوان کے فیصلے کے بارے میں صدرِ مملکت کو آگاہ کرتا ہے، سیکرٹری اسمبلی گزٹ میں اس کو شائع کراتا ہے اور نئے قائد ایوان کے انتخاب کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔

قومی اسمبلی کی جانب سے یاد دہانی کے نوٹس کے طور پر جاری ہونے والے قواعد میں ارکان کو وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ لینے کے طریقہ کار سے آگاہ کیا گیا ہے۔ان قواعد کے مطابق پاکستان کے وزیرِاعظم کا امیدوار بننے کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط ہے۔ اسمبلی ارکان کی جانب سے تجویز اور تائید کنندگان جو کہ خود بھی رکن اسمبلی ہوں۔ کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتے ہیں، جن کی جانچ پڑتال سپیکر قومی اسمبلی کرتا ہے۔

قواعد کے مطابق سپیکر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے امیدواروں کے کاغذات مسترد کر دے۔ مگر اس کے لیے سپیکر کو وجہ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی حتمی طور پر منظور ہونے کے بعد وزیرِاعظم کے انتخاب کا عمل اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔

ن لیگ اور پی ٹی آئی کے کارکن لندن میں آمنے سامنے

قواعد میں وزیراعظم کے انتخاب کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے جس کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے سے قبل سپیکر حتمی امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرتا ہے۔ اگر دو یا دو سے زائد امیدوار ہیں تو ان کے انتخاب کے لیے سپیکر ارکانِ اسمبلی کو الگ الگ لابیوں میں جانے کی ہدایت کرتا ہے، جب ارکان اس متعلقہ لابیز میں چلے جاتے ہیں جہاں قومی اسمبلی میں موجود عملے کے ارکان کے ناموں کا اندراج کر لیتا ہے۔ ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد عملہ تحریری طور پر ووٹنگ کی گنتی سے متعلق سپیکر کو آگاہ کیا جاتا ہے جو ایوان میں نتیجے کا اعلان کرتا ہے۔

اگر وزیراعظم کے لیے ایک ہی اُمیدوار ہو اور اس کو 172 ارکان کی حمایت حاصل ہو تو سپیکر بلامقابلہ اس کی کامیابی کا اعلان کر دیتا ہے تاہم اگر اس کے حق میں 172 ارکان سامنے نہ آئیں تو وزیراعظم کے انتخاب کا تمام عمل نئے سرے سے شروع کیا جاتا ہے۔

Back to top button