کچے میں ڈاکوئوں کیخلاف گرینڈ آپریشن کتنا کامیاب ہوا؟

پنجاب پولیس کی جانب سے جنوبی حصے میں سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کیخلاف گرینڈ آپریشن پوری قوت کے ساتھ جاری ہے جس میں اب تک ایک ڈاکو کو ہلاک کرنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

آئی جی پولیس پنجاب کے ترجمان نایاب حیدر نے منگل کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کچے کے علاقے میں آپریشن تیسرے روز میں داخل ہو گیا ہے اور پولیس کے تازہ دم دستوں کی پیش قدمی جاری ہے۔

ترجمان آئی جی کی جانب سے اردو نیوز کو دی گئی معلومات کے مطابق ’ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب مقصود الحسن، آرپی او بہاولپور رائے بابر سعید اور ڈی جی خان کیپٹن ریٹائرڈ سجاد حسن خان بھی کچے کے علاقے میں موجود ہیں۔پولیس نے مجرموں کے ٹھکانے مسمار کرتے ہوئے نذر آتش کرنے کے بعد سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل اندرون کچے کا رقبہ سرچ آپریشن کے بعد کلیئر قرار دے دیا ہے، اب تک آپریشن کے دوران ایک خطرناک ڈاکو ہلاک، چھ گرفتار، سینکڑوں ایکڑ رقبہ سرچ آپریشن کے بعد کلیئر کروا لیا گیا۔

رحیم یار خان کے صحافی چوہدری اشفاق نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ آپریشن جس علاقے میں ہو رہا ہے، یہ صوبہ پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ایک زرخیز علاقہ ہے جہاں گندم، کپاس اور گنے کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔

مقامی صحافی اویس اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ آپریشن پہلے انٹیلیجنس بنیادوں پر ہوتا تھا لیکن اب چونکہ گندم کا موسم ہے تو پولیس نے باقاعدہ ’گرینڈ آپریشن‘ شروع کیا ہے، کچے کے جن علاقوں میں آپریشن ہو رہا ہے یہ تھانہ بھونگ، تھانہ کوٹ سبزل اور تھانہ ماچکہ کے تحت آتا ہے۔ تھانہ ماچکہ کچے کے علاقے کے اندر واقع ہے۔پولیس کی جانب سے گندم کی فصل کے تیار ہونے کے اوقات میں آپریشن شروع کرنے پر سوال بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

اویس اسلم نے بتایا کہ ’اس علاقے میں دو فصلیں گندم اور گنا ہوتی ہیں۔ گنے کے موسم میں پولیس کے لیے آپریشن مشکل ہوتا ہے۔ گنے کی فصل کی اونچائی زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اور کئی ایکٹر تک پھیلی فصل کے ایک جانب سے اگر ڈاکو داخل ہوں تو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے بہت آگے تک کارروئیاں کر سکتے ہیں۔

ماضی میں بعض مرتبہ پولیس کی گاڑیوں میں گندم کی بوریاں دیکھی گئیں لیکن پانچ چھ برس سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی، صحافی چوہدری اشفاق نے پولیس کی کچے کے علاقے میں پیش قدمی کے حوالے سے بتایا کہ ’پولیس اس علاقے میں مختلف چیک پوسٹیں قائم کرتی ہے لیکن جب یہاں دریا کا پانی آ جاتا ہے تو وہ ختم ہو جاتی ہیں۔

کچے کے علاقے میں پہلے سے چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ پانچ ہزار دوسرے اضلاع سے منگوائے گئے ہیں، لیکن ہمارے حساب سے یہاں تین سے چار ہزار پولیس اہلکار موجود ہیں۔گزشتہ دنوں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن میں چند مغوی افراد اپنی بازیابی کے لیے فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈاکوؤں کے زیراثر علاقے میں ناصرف موبائل فون سروس میسر ہے بلکہ فور جی انٹرنیٹ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکو لوگوں کو اغواء کر کے ان کی ویڈیوز بنا کر وائرل کرتے ہیں، مقامی صحافی فرحان اقبال نے بتایا کہ ’ڈاکو اور اغواء کار سوشل میڈیا پر اشتہار لگاتے ہیں کہ تُوڑی(گندم سے بننے والا چارہ) 250 روپے فی من دستیاب ہے حالانکہ اس کی اصلی قیمت 600 روپے فی من ہے۔ اسی طرح وہ 16 لاکھ کا ٹریکٹر 11 لاکھ میں دینے کی پیشکش کرتے ہیں جس سے کئی دکاندار اور عام افراد لالچ میں آ کر ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

مقامی صحافی فرحان اقبال نے بتایا کہ عام طور پر یہاں سے جو بھی گاڑی کچے کی جانب جاتی ہے، پولیس اس گاڑی کے مسافروں کو خطرے سے آگاہ کرتی ہے، پولیس کچے کی جانب جانے والی گاڑیوں کے لیے اعلان کرتی ہے کہ اگر آپ کو سستے ٹریکٹر، تُوڑی یا کسی لڑکی سے شادی کے لیے بلایا گیا ہے تو یہ آپ کو ٹریپ کرنے (پھنسانے) کی کوشش ہو سکتی ہے۔

مقامی صحافیوں کے بقول اس وقت کچی جمال میں اب ڈاکو زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں مشہور چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ اس وقت جو گینگز متحرک ہیں ان میں لُنڈ گینگ، اندڑ گینگ، شَر گینگ اور دُولانی گینگ نمایاں ہیں۔

ریاستی اداروں کے ٹکراؤ کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا؟

Back to top button