علیم خان کی حمزہ شہباز سے اختلافات کی افواہیں دم توڑ گئیں
تحریک انصاف کے منحرف ارکان عبدالعلیم خان کی متحدہ اپوزیشن کے وزارت اعلیٰ کیلئے امید وار حمزہ شہباز سے اختلافات کی افواہیں دم توڑ گئیں۔
پی ٹی آئی کے باغی رہنما عبدالعلیم خان نے نجی ہوٹل میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کے ساتھ ’گرما گرم بحث، تند و تیز جملوں کے تبادلے اور جھگڑے‘ کی افواہوں کی تردید کردی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک پیغام میں علیم خان نےکہا کہ میرا حمزہ شہباز شریف کے ساتھ محبت اور احترام کا رشتہ ہے، وہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے اور ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا جیسا کی افواہیں اڑائی جارہی ہیں۔
خیال رہے کہ علیم خان کی جانب سے وضاحت سوشل میڈیا پر ان رپورٹس کے بعد سامنے آئی ہے جن میں گزشتہ رات لاہور کے ایک ہوٹل میں ان کی مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز سے اختلاف کی خبریں سامنے آئی تھیں، جہاں حمزہ نے مبینہ طور پر علیم خان کو تھپڑ مارا۔ علیم خان سے متعلق اڑائی گئی افواہوں میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے منحرف رہنما نے حمزہ شہباز کو خبردار کیا کہ اگر ان کی شرائط پوری نہ ہوئیں تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
یاد رہے کہ ماضی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھی علیم خان نے عمران خان نے مایوسی کا اظہار کیا اور آئندہ چند روز ہونے والے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے خلاف مؤقف اختیار کیا۔
علیم خان نے آج اپنے ٹویٹ میں مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے آئندہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی پر ان کے اور حمزہ شہباز کے درمیان اختلافات کی جعلی خبروں کا الزام لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو اپنی شکست نظر آرہی ہے، وہ جان چکے ہیں کہ شکست ان کا مقدر بن چکی اور اس لیے انہوں نے ایسی گھٹیا حرکتیں کیں۔ انہوں نے کہاپرویز الہٰی کو اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور انتخابات کے لیے میدان میں اترنا چاہیے، اس کے بعد انہیں ایسی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
یاد رہے کہ 7مارچ کواپوزیشن اتحاد کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے ایک روز قبل علیم خان نے کھل کر اختلافی کلب اور بعد میں اپوزیشن اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی، انہوں نے مرکز میں عمران خان کی حکومت اور صوبے میں عثمان بزدار کی زیر قیادت پنجاب حکومت کو اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے اور وعدہ کردہ تبدیلی لانے میں مکمل طور پر ناکام قرار دیتے ہوئے تنقید کی تھی۔اگرچہ علیم خان کی قومی اسمبلی میں ضرورت نہیں تھی لیکن پنجاب کی میں ان کا کردار اہم ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی نے گزشتہ ماہ عثمان بزدار کے استعفے کے بعد نئے قائد ایوان کا انتخاب کرنا ہے، مسلم لیگ (ق) کے پرویز الہٰی اور مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز جنہیں علیم خان نے حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے، توقع ہے کہ وہ آئندہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی دوڑ کے مضبوط امیدوار ہیں۔
خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر منتخب ہونے کے لیے 371 رکنی ایوان میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار کو کم از کم 186 ووٹوں کی ضرورت ہوگی، پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 ارکان ہیں جبکہ 5 آزاد اور ایک رکن پنجاب اسمبلی کا تعلق راہ حق پارٹی سے ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کی حمایت فیصلہ کن عنصر ہوگی، منحرف جہانگیر ترین گروپ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس کم از کم 16 ایم پی اے ہیں اور علیم خان گروپ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس 6 ایم پی اے ہیں۔ ان دونوں گروپوں نے اپنی پارٹی سے واضح علیحدگی میں حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا ہے، ان گروپوں کی حمایت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی جیت یقینی ہوسکتی ہے، تاہم، انتخابات اس وقت سے تعطل کا شکار ہیں جب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اپوزیشن کو پنجاب اسمبلی میں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا جب پرویز الہٰی نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے بلائے گئے اجلاس کو ‘غیر قانونی’ قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے دستخط شدہ اسمبلی کے پہلے نوٹی فکیشن کے مطابق اجلاس 16 اپریل کو بلایا گیا تھا، پرویز الہٰی نے بطور اسپیکر اپنا اختیار استعمال کیا تھا اور دوست مزاری کو دیے گئے اختیارات فوری طور پر واپس لینے کا حکم دیا تھا۔ پی ٹی آئی، پی ایم ایل (ق) اتحاد میں ان کے اپنے ساتھی قانون سازوں کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد دوست محمد مزاری سے اجلاس کی صدارت کا اختیار بھی چھین لیا گیا تھا، 16 اپریل سے پہلے اجلاس کے انعقاد کا ان کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے مذاکرات کا نتیجہ تھا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر انہیں ‘اچھی پیشکش’ کرکے راضی کیا۔8 اپریل کوحمزہ شہباز نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالت مدد مانگی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی پرویز الہٰی نے بھی (ن) لیگ پر اپنے ایم پی ایز کو یرغمال بنانے کا الزام لگاتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جس کے تحت نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ 16 اپریل کو ہوگی۔