عمران توشہ خانہ کے سستے تحائف مہنگے داموں بیچتے رہے

تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے وزیراعظم شہباز شریف کے اس الزام کی تصدیق کر دی ہے کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم سرکاری توشہ خانہ سے غیر ملکی تحائف سستے داموں خرید کر 14 کروڑ روپوں کے عوض دبئی میں فروخت کیے تھے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں کنفرم کرتا ہوں کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے قیمتی تحائف لے کر بیرونِ ملک بیچے دیے۔ انہوں نے بتایا کہ عمران نے یہ تحائف 14 کروڑ روپے میں دبئی میں بیچے۔ ان قیمتی تحائف میں ڈائمنڈ جیولری، سونے کے زیورات، بریسلیٹ، اور گھڑیاں وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ سرکاری توشہ خانہ سے غیر ملکی تحائف کو 30 فیصد قیمت ادا کر کے خریدا جا سکتا ہے تاکہ انہیں اپنی ذاتی استعمال میں لایا جا سکے، لیکن عمران نے سستے داموں توشہ خانہ سے تحائف خریدنے کے بعد اپنے ذاتی استعمال میں لانے کی بجائے مہنگے داموں دبئی میں فروخت کر کے 14 کروڑ روپے کمائے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے بتایا کہ مجھے بھی ایک بار بیرون ملک سے ایک گھڑی بطور تحفہ ملی تھی جسے میں نے توشہ خانے میں جمع کرا دیا تھا۔ دودری جانب تحریکِ انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے عمران خان کے توشہ خان سے تحائف لے کر دبئی میں بیچنے کے بیان پر ردّ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر خان صاحب نے حکومت کے مال خانے سے گھڑی خرید کر بیرون ملک بیچ دی تو اس میں جرم کا پہلو کہاں ہے؟
فواد نے کہا کہ کسی دوسرے ملک نے گھڑی تحفے میں دی جو عمران خان نے توشہ خانہ سے خرید لی، اب اگر انہوں نے یہ گھڑی باہر جا کر بیچ دی تو اس میں جرم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ شہباز شریف کاالزام ہے کیا؟ شہباز کنفیوژڈ لگ رہے ہیں، ان کو سمجھ نہیں آرہا کہ عمران خان پر کیسے الزامات لگائیں۔
سابق وزیر نے کہا کہ گھڑی 5 کروڑ کی ہو یا 10 کروڑ کی، اگر وہ میری ملکیت ہو چکی ہے اور میں نے بیچ دی تو اس پر کسی کا کوئی اعتراض بنتا ہی نہیں؟ فواد چودھری نے کہا کہ کبھی شہباز گھڑی تو کبھی کریکٹر کا ایشو لے کر آ جاتے ہیں، شہباز صرف عمران پر کیچڑاچھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم فواد چوہدری کو یاد رکھنا چاہیئے کہ 30 فیصد قیمت پر تحائف خرید کر بیرون ملک کروڑوں میں بیچ کر دراصل عمران خان بطور وزیر اعظم ایک منافع بخش کاروبار کر رہے تھے جو قانونی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے تحفے میں ملنے والا ایک بیش قیمت ہار توشہ خانہ میں جمع کروائے بغیر ہی اپنے قریبی ساتھی زلفی بخاری کی مدد سے لاہور کے ایک جیولر کو 18 کروڑ روپوں میں فروخت کر دیا تھا۔ ایف آئی اے نے اس کیس کی تفتیش شروع کر دی ہے اور ہار کے حوالے سے جیولر کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ عمران جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا تھا، کابینہ ڈویژن نے انفارمیشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر ایک شہری کو وزیراعظم کے وصول کردہ تحائف کی تفصیل دینے کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ حکومت نے عمران خان کو بطور وزیراعظم ملنے والے تحائف کو کلاسیفائیڈ قرار دیتے ہوئے یہ بھونڈا موقف اپنایا تھا کہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کا عکاس ہوتا ہے، ایسے تحائف کی تفصیلات کے اجرا سے غیر ضروری خبریں چلیں گی جس سے مختلف ممالک سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہوں گے اور ملکی وقار مجروح ہو گا۔ لیکن اب سمجھ آئی ہے کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل کیوں چھپائی جا رہی تھی۔
یاد رہے کہ توشہ خانہ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے. اس کے معنی ہیں وہ مکان جہاں امیروں کے لباس، پوشاک اور زیورات جمع رہتے ہیں۔ پاکستان میں صدر، وزیراعظم، وزرا، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلی، ججز، سرکاری افسران اور حتی کہ سرکاری وفد کے ہمراہ جانے والے عام افراد کو بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ کے ضابطہ کار 2018 کے تحت کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں لانا اور یہاں جمع کروانا ضروری ہیں۔ بعد ازاں یا تو انہیں 30 فیصد قیمت پر خریدا جا سکتا ہے یا پھر انہیں سرکاری طور پر نیلام کر دیا جاتا ہے۔
سرکاری طور پر ملنے والے تمام تحائف اسی توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ تاہم جمع کروانے کے بعد 30 ہزار روپے تک مالیت کے تحائف صدر، وزیراعظم یا جس بھی شخص کو تحفتاً ملا ہو وہ مفت حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کے لیے ان شخصیات کو اسکی قیمت کے تخمینے کا 30 فیصد ادا کرنا لازم ہوتا ہے جس کے بعد وہ اس کی ملکیت میں آ جاتا ہے۔ ان تحائف کی قیمت کا تخمینہ ایف بی آر اور ماہرین لگاتے ہیں۔ تاہم تحفے میں ملنے والی گاڑیاں اور نوادرات خریدے نہیں جا سکتے، ایسی گاڑیاں سرکاری استعمال میں آجاتی ہیں اور نوادرات صدر، وزیراعظم ہاؤس، میوزیم یا سرکاری عمارتوں میں نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے 2020 میں توشہ خانہ کے دو سو تحائف کی نیلامی کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق ان اشیا کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین اور فوج کے ملازمین حصہ لے سکتے ہیں۔
لیکن اس نوٹیفیکیشن کو لاہور ہائی کورٹ میں چلینج کر دیا گیا تھا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے 25 مئی 2021 کو توشہ خانے کے سرکاری تحائف کی خفیہ نیلامی کی پالیسی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ حکومت اس پر قانون سازی کرے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانے کی چیزیں پبلک پراپرٹی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’ان چیزوں کا عجائب گھر بنا دیں، عوام کو بولی میں شامل نہ کرنا دھتکارنے کے مترادف ہے۔‘ عدالت نے کابینہ ڈویژن کو ان تحائف کے حوالے سے نئی پالیسی تشکیل دینے کامکہا گیا تھا، تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور عمران خان نے توشہ خانہ سے تحائف اس عدالتی حکم نامے کے بعد خریدے۔
سرکاری حکام کے مطابق جو تحائف صدر، وزیراعظم یا حکام نہیں خریدتے ان کو ایک مقررہ مدت کے بعد نیلامی میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیل کے مطابق اس وقت توشہ خانہ میں 1200 روپے کے پیالوں سے لے کر ڈیڑھ کروڑ روپے تک کی گھڑیوں سمیت متعدد اشیا موجود ہیں جن میں کلاشنکوف، پینٹنگز، گھڑیاں، پین اور سٹیشنری کی اشیا شامل ہیں۔