دو سینئرترین جرنیلوں کو ترقی دینے کا فیصلہ ہوگیا
معروف صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید کو حکومتی فیصلہ سازوں کی جانب سے اطلاع ملی ہے کہ موجودہ کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کو ترقی دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور یہ بھی طے ہو گیا ہے کہ ان دو جرنیلوں میں سے ایک آرمی چیف بنایا جائے گا اور دوسرے کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف لگایا جائے گا۔ وفاقی حکومت میں جن چند لوگوں کے پاس یہ اطلاع ہے، انہی میں سے کسی نے یہ گرما گرم خبر سینئر صحافی کو دی ہے۔ اپنے یوٹیو
ب چینل پر سینئر صحافی عمر چیمہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز نے بتایا کہ فیصلہ سازوں کی جانب سے اہم فیصلے کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں بڑے فوجی عہدے اسی ماہ نومبر میں جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم رضا کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے خالی ہونے والے ہیں اور ان پر دو سینئر جرنیلوں کو تعینات کرنے کا اصولی فیصلہ ہو گیا ہے۔ اس بارے موجودہ فوجی قیادت سے بھی مشورہ کیا گیا ہے لیکن جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے، انہوں نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے پاکستان میں جمہوری نظام مضبوط ہوگا اور کوئی تنازعہ بھی کھڑا نہیں ہو گا۔
اس موقع پر عمر چیمہ نے کہا کہ انہیں قطعاً حیرت نہیں ہو گی اگر موجودہ کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ کی جگہ آرمی چیف لگا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پہلے دن سے یقین ہے کہ جن دو جرنیلوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے ان میں ایک عاصم منیر لازماً ہوں گے۔ پھر چاہے وہ آرمی چیف لگ جائیں یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، مگر ایک بات طے ہے کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل سے جنرل ضرور بنیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ 29 نومبر کو جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے یعنی 26 نومبر کو ہونا ہے۔ ان کی تعیناتی تو 26 ستمبر 2019 کو ہوئی تھی لیکن ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے انہوں نے 26 اکتوبر کو لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ سنبھالا جس کے بعد انہیں ایک ماہ اضافی دے دیا گیا کیونکہ انہیں بیج ایک مہینے کے بعد لگے تھے۔ اس لئے وہ اب نئے آرمی چیف کی دوڑ میں شامل ہیں اور سب سے آگے نکلتے نظر آتے ہیں۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ترقی ملنے کے وقت ملک سے باہر ہونا اور پھر اتنی دیر تک لیفٹیننٹ جنرل کے ستارے نہ لگنا، اس سے لگتا تو یہی ہے کہ خدا کی قدرت عاصم منیر کے ساتھ ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں عاصم منیر نہ صرف ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ رہے ہیں بلکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ ان چند آئی ایس آئی چیفس میں شامل ہیں جنہیں ان کے عہدے کی معیاد پوری کرنے سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ عاصم منیر کو اکتوبر 2018 میں آئی ایس آئی چیف مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے خفیہ ادارے کے سبکدوش ہونے والے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی جگہ لی تھی۔ جولائی 2018 کے عام انتخابات کے وقت وہ ملٹری انٹیلی جنس کے چیف تھے۔ وہ فوج میں ایک سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں چنانچہ جب بطور آئی ایس آئی سربراہ انہوں نے تب کے وزیراعظم عمران خان کو انکے سسرالی مانیکا خاندان کی خواتین و حضرات کی کرپشن بارے آگاہ کیا تو خان صاحب نالاں ہو گئے اور انہیں عہدے سے ہٹا کر فیض حمید کو نیا آئی ایس آئی چیف بنا دیا۔ تب عاصم منیر کو عہدے پر تعینات ہوئے صرف آٹھ ماہ گزرے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عمران کی مخالفت کا سامنا ہے۔
خان کے سر سے دست شفقت ہٹانا فوج کا جرم کیوں بن گیا؟
لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا تعلق او ٹی ایس کے اس کورس سے ہے جو 75ویں لانگ کورس سے جونیئر اور 76ویں لانگ کورس سے سینئر ہے۔ عاصم منیر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل نہیں بلکہ انھوں نے آفیسرز ٹریننگ سکول سے فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ وہ لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت میں سعودی عرب میں بھی تعینات رہ چکے ہیں جبکہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے سیاچن میں فوجی ڈویژن بھی کمانڈ کی ہے۔ اسکے علاوہ وہ سورڈ آف آنر بھی رکھتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عاصم منیر کو سنیارٹی اصول کے تحت نیا آرمی چیف بنا دیا جائے تو کسی قسم کا کوئی تنازعہ کھڑا ہونے کا امکان نہیں کیونکہ وہ اس وقت موجودہ جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر ہیں۔
جہاں تک چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کا تعلق ہے تو وہ جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کا نمبر کور کمانڈر راولپنڈی ساحر شمشاد کے بعد آتا ہے جنہیں کہ اپنے چکوال کنکشن کی وجہ سے فیض حمید کے کافی قریب خیال کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان فیض حمید کے آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد ساحر شمشاد کو نیا فوجی سربراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا انہیں آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بنانے کا امکان بہت کم ہے۔ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے اظہر عباس سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے بطور کور کمانڈر ٹین کور کمان کی ہے۔ اظہر عباس بطور میجر جنرل کمانڈنٹ انفنٹری سکول بھی تعینات رہے ہیں جبکہ وہ مری کے جی او سی بھی رہے۔ اظہر عباس ماضی میں جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے پرنسپل سٹاف آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کو سیاسی جرنیل سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کے پرنسپل سٹاف آفیسرز کو آرمی چیف لگانے کا امکان کم اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف لگائے جانے کا امکان زیادہ ہے۔