مزید دوججز کا چیف جسٹس کا ’ون مین شو‘ ختم کرنے کا مطالبہ
سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس قاصی فائز عیسی کے بعدجسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے وسیع اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ چیف جسٹس کا ’ون مین شو‘نہیں چلے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ’ون مین شو‘ اختیارات کا لیا جائے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر عدالت عظمی کی طرف سے لیے جانے والے از خود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے اور سپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے دو ججز نے تحریری فیصلے میں چیف جسٹس کے اختیارات کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کا ‘ون مین شو’ نہیں چلے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے کیس کے فیصلے کو3-4 قرار دیتے ہوئے سوموٹو نوٹس کو خارج کر دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ازخودنوٹس کیس کی کاروائی ختم کی جاتی ہے.سپریم کورٹ کے دو ججوں نے لاہور اور پشاور ہائیکورٹس کو اس حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ ور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ از خود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا، آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی، سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا، وقت آگیاہےکہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانےکاسلسلہ ختم کیا جائے، از خود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فُل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وسیع اعزازات سے نوازا جاتا ہے، ستم ظریفی ہے کہ سپریم کورٹ قومی اداروں کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
دو ججز کے فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس، بینچز کی تشکیل اور مقدمات فِکس کرنے کا اختیار ہے، چیف جسٹس کے پاس بےلگام طاقت ہے جس کا وہ لطف لیتے ہیں، چیف جسٹس کی طاقت کے بےدریغ استعمال سے سپریم کورٹ کا وقار پست اور کڑی تنقید کی زد میں رہا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم دو ججز کا فیصلہ جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا، آئینی ادارے کے ممبران کے طور پر ہمارا ہر عمل تاریخ کا حصہ بنتا اور زیر بحث آتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کو 7 میں سے 4 ججوں نے مسترد کیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یکم مارچ کا الیکشن ازخود نوٹس کیس کا آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ فیصلے میں لاہور اور پشاور ہائیکورٹس کو حکم دیا گیا ہے کہ زیرالتوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل بینچ بنانے کے صوابدیدی اختیار کو ’ون مین پاور شو‘ قرار دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کے’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرناہوگی، سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کےفیصلوں پرنہیں چھوڑا جا سکتا، اسپیشل بینچ اور آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔
دو ججز کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاناما کیس میں عدالت کا پہلا حکم 2-3 کے تناسب سے آیا تھا، اختلاف کرنے والے 2ججز نے باقی پاناما کیس نہیں سنا تھا لیکن ان کو بینچ سے الگ نہیں کیا گیا تھا، پاناما نظرثانی کیس بھی پھر ان 2 ججز سمیت 5 رکنی لارجر بینچ نے سنا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ فیڈرل ازم کا بنیادی اصول صوبائی خودمختاری ہے، ہائیکورٹس صوبائی سطح پر سب سے اعلیٰ آئینی ادارہ ہے، صوبائی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، سپریم کورٹ کو ہائیکورٹ کی خودمختاری مجروح نہیں کرنی چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی شدید تقسیم نے ملک میں چارجڈ سیاسی ماحول قائم کر رکھا ہے، چارجڈ سیاسی ماحول میں سپریم کورٹ کا سیاسی جھنڈ میں شامل ہونا تنقید کا ہی باعث بنا، جمہوریت کبھی تقسیم سے خالی نہیں ہوتی، سیاسی سسٹم کا مقصد ہی اس تقسیمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنا ہے۔سپریم کورٹ کے دونوں ججز نے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس کا آرڈر آف کورٹ چار اور تین ججز کا ہے ، پاناما کیس میں پہلے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ دو تین کا تھا، جس کے بعد تین رکنی اور پھر پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ آیا ۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے میں کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ 184 تین کے اختیار سماعت کو ریگولیٹ کیا جائے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس طرح صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے ایگزیکٹو کے اختیارات کے بارے میں فیصلے دیے وہی اصول چیف جسٹس کے اختیارات پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔دونوں ججز نے فیصلے میں کہا کہ یک بار بینچ بننے کے بعد چیف جسٹس کسی جج کو بینچ سے نہیں ہٹا سکتا ، الیکشن از خود نوٹس میں دو ججز درخواستیں مسترد کرنے کا پہلے فیصلہ دے چکے تھے ، آرڈر آف کورٹ کیوں نہیں آ رہا؟ اس کی وجوہات یہاں بتانا ضروری ہیں تاکہ ریکارڈ کا حصہ بن جائے، کیوں کہ ہم چاروں جج یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ چار تین کا ہے، جبکہ دیگر تین ججز اس کو تین دو کا فیصلہ سمجھتے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ سے بینچ کے سربراہ فیصلہ جاری نہیں کر پا رہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چار تین کا فیصلہ جس کے تحت از خود نوٹس کیس کو مسترد کر دیا گیا ہے وہ بائنڈنگ ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2 ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے انتخابات کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کے اختلافی فیصلے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر کڑی تنقید کی ہے اور ان کے دور میں سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس اختیارات کے ذریعے انتظامی معاملات میں مداخلت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
ججوں نے ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ یاسر قریشی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ جس طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس کے اختیارات استعمال کیے تاریخ میں کبھی استعمال نہیں ہوئے۔اقتباس میں طنزاً اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کے عدالت کے اندر اور عدالت کے باہر ازخود نوٹس اختیارات کی آندھی سے انصاف کرنا ممکن نہیں کیونکہ انہوں نے سارے پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔دونوں ججوں نے کہا ہے کہ پانی کی شفافیت اور تقسیم سے لے کر دودھ کی پیداوار تک، اسپتالوں کے انتظامات سے لے کر تعلیمی میدان میں تفریق اور بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول سب عدالتی ہتھوڑے کی زد میں تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے فیصلے میں مذکورہ کتاب سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے سال 2018 کے صرف ابتدائی 3 مہینوں میں 30 ازخود نوٹس لیے جو کہ سب کے سب اخباری خبروں، ٹی وی خبرنامے کی شہ سرخیوں یا سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی کسی پوسٹ کی بنیاد پر لیے گئے۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ایک کیس میں تو جسٹس ثاقب نثار نے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ایسی تصویر پر نوٹس لیا جس میں ایک جنازے کو سیوریج کے پانی میں سے گزار کر لے جایا جا رہا تھا۔
فیصلے کے شروع میں دونوں ججوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین اور قانون میں طے ہیں اور یہ کسی جج کی سہولت اور مرضی کے اعتبار سے طے نہیں ہو جاتے اور جب ایسا ہوتا ہے تو وہ ایک شاہی عدالت بن جاتی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا اور ابتدائی طور پر اس پر 9 رکنی لارجر بینچ بنایا گیا تھا۔لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔تاہم سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں۔کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، آڈیو میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی تھی۔ اس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ 90 روز میں الیکشن کرائے جائیں۔ پانچ رکنی بینچ نے 2-3 کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنایا تھا۔
تاہم اب الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2023 کی نئی تاریخ کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد تحریک انصاف معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ لے گئی ہے جہاں اس کی سماعت جاری ہے۔