عمران کا مارشل لا لگوانے کا خواب کیسے بکھرا؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ الله نیازی نے کہا ہے کہ عمران خان کا یہ بیان حلفی کہ ’’مجھے گرفتار نہ کرو میں 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہو جاؤں گا‘‘، سو پیاز اور سو جوتے خانے کے مترادف ہے . عمران خان کا ملک کو مارشل لا اور ایمرجنسی کے حوالے کرنے کا خواب اب تک تتر بتر رہا ہے . اپنے کالم میں حفیظ الله نیازی سوالیہ انداز میں لکھتے ہیں کہ کیا عمران خان گرفتاری نہ دیکر بازی جیت چکے؟ عمران خان کے سپورٹرز کا یہی خیال کہ مقدس فریضے کی ادائیگی میں وہ ریاست کو پچھاڑ چکے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک عدالت کا یہ فیصلہ کہ ’’90 روز میں الیکشن‘‘ ہوں اس کو عملی جامہ پہنانا جہاد ہے اور دوسری عدالت کے حکم یعنی ’’ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری‘‘ سے بچنا بھی جہاد ہے، عمران خان کوسہولت یہ حاصل ہے کہ ان کے اپنے بچے استعمال میں نہیں جب کہ دوسروں کے بچوں کو اپنے مفاد کا ایندھن بنا رکھا ہے۔ عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کیلئےآرٹیکل 5 ، عدالتی احکامات ، حکومتی عمل داری اور طاقتور کو قانون کی گرفت میں لانا ، سب کچھ پامال کر رکھا ہے۔
حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ یاسمین راشد کی اعجاز شاہ کیساتھ آڈیو ، علی امین گنڈاپور کا اپنے ایم پی ایز کو پابند کرنا ،اراکین اسمبلی کو 50 سے 100 بندے لانے پر اصرار کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اگران کے بندے آتے تو تعداد لاکھ سے تجاوز کر جاتی، مگر عملاً دو ہزار اکٹھے نہ ہو پائے۔ بُرا ہو ،پولیس کے بے ڈھنگے وقت آپریشن کا اور میڈیا پر لائیو بال ٹو بال کوریج کا، مزیدعمران خان کی دل سوز ،دلگذار اپیل کا کہ ’’دیکھو! مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں‘‘۔ ملک کے طول و عرض سے آئے چند ہزار شدت پسند اور جذباتی نوجوانوں کے جذبات بھڑکے اور وہ ریاست پر حملہ آور ہوگئے، یہ عملاً ریاست کیخلاف دن دہاڑے بغاوت تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو جمعہ صبح 10 بجے تک آپریشن روکنے کا حکم دیا تو جنگ بندی کے دوران کارکن دوبارہ تازہ دم ہوچکے ۔غلیلیں، ڈنڈے ،پتھر اور ’’پٹرول بم‘‘ کا کثیر ذخیرہ دوبارہ اکٹھا کرنے کا موقع مل گیا ہے. عارضی جنگ بندی پر عمران خان کا باہر آ کر جتھے کی حوصلہ افزائی کرنا، شاباش دینا، ان کے عزائم کو آشکار کر گیا ہے۔
حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ عمران خان کا یہ بیان حلفی کہ ’’مجھے گرفتار نہ کرو میں18 مارچ کو پیش ہو جاؤں گا‘‘، سو پیاز اور سو جوتے کھانے کے مترادف ہے ۔ سیکورٹی کا صرف بہانہ ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے ۔ اس سے پہلے نوازشریف ، بے نظیر، فضل الرحمان درجنوں دہشت گردی کا شکاربنے، 1997 میں نوازشریف کی کار رائیونڈ پل پر پہنچی تو ٹائم بم نے پل اُڑا دیا ۔ نوازشریف آدھے سیکنڈ سے بال بال بچے۔ بینظیر بھٹو کی ریلی کو بم سے اُڑا دیا گیا۔ بینظیر شہید نے شہر شہر جا کر لواحقین سے تعزیت کی ۔ فضل الرحمان پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ کسی ایک نے سیاسی فائدے کیلئے ہمدردی کی بھیک نہیں مانگی۔
عمران خان کی جب سے حکومت چھو ٹی ہے ان کی جھوٹ پر گزراوقات ہے۔ انہوں نے BBC کو انٹرویو دیا کہ’’میری گرفتاری رُول آف لا کی بجائےجنگل لا ہے‘‘۔جھوٹ یہ بولا کہ’’18 مارچ تک ضمانت پر ہوں‘‘جبکہ 13 مارچ کو حاضرنہ ہونے پرعدالت نے دوسری دفعہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا ۔تحریک انصاف کے قابل ذکر لیڈر پردۂ سمیں سے غائب رہے کہ عمران خان کی پُر تشدد سیاسی حکمت عملی سے متفق نہیں تھے۔ یاسمین راشد اورعارف علوی کی یہ آڈیو لیکس کہ ، ’’کارکنوں کے پٹرول بم حملوں سے پولیس کی لاشیں گر سکتی ہیں، کسی طریقے اُن کو روکا جائے‘‘۔ اس نے دوباتیں عیاں کر دیں ، عمران خان کی حکمت عملی سے باقی قیادت لاعلم ہے ،دوسرا وہ بے بس اور پریشان ہیں کہ ’’عمران خان کو کوئی کیسے سمجھائے کہ تشدد کی بجائے قانون اور عدالت کے سامنے ہتھیارڈالنا ہوں گے‘‘۔ حیف! عمران خان اپنے سپورٹرز کو اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اُکسا چکے ہیں۔ وہ اپنی لڑائی عمدہ طریقہ سے لڑ رہے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کی حکمت عملی اس لحاظ سے کامیاب ہے کہ عمران خان کو لاشوں کا تحفہ نہیں ملا۔
25 مئی2022 ءکے لانگ مارچ کی ناکامی سے عمران کو یہ یقین ِ کامل ہوگیا تھا کہ ، ’’جنہوں نے نکالا اب وہ واپس نہیں آنے دیں گے‘‘۔تب سے الیکشن سے زیادہ مارشل لا اور ایمرجنسی کیلئے راہیں ہموار کرنا ان کی ترجیح ہے۔حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ امریکہ کا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی انگڑائی لینا، آنے والے حالات کی سنگینی اورحکومت کیلئے بدشگونی کی نشاندہی ہے . امریکی مدد کا بڑھ چڑھ کر بولنا توقع کے عین مطابق ہے ۔ چند دن پہلے رُکن امریکی کا نگریس یہودی بریڈ شرمین اور CIA ایجنٹ زلمے خلیل زادخم ٹھونک کر مدد میں آ چکے ہیں بلکہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر چکے ہیں۔
ایک طرف عمران خان ٹولہ ریاست پر تو دوسری طرف حکومت عوام پر’’پٹرول بموں‘‘سے حملہ آور ہو چکے ہیں ۔ پٹرول 5 اور ڈیزل 13 روپے مہنگا ایسے دن کیا گیا ، جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 6 ڈالر کم ہوئی ہے۔ پچھلے 7 برسوں سے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جس محنت اور کاوش سے موجودہ بحران پیدا کیا ، اُس کی داد بنتی ہے۔TTP، TLP، MQM کی کامیاب لانچنگ کے بعد PTI کی لانچنگ سے، اسٹیبلشمنٹ سبق کیا سیکھتی، یہ ریاست کو سبق سکھا چکی ہے۔
حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت رُخصت ہوئی تو ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کا عفریت شکنجے میں لینے کو پہلے سے تیار تھا ۔آج حکومت کے ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا، ریاست کو سنبھالنامشکل ہو رہا ہے ۔سیاسی شعور والا کوئی سیاستدان، عمران خان کی چھوڑی حکومت کو چمٹے سے نہ اُٹھاتا۔ مگر مسلم لیگ ن نے نوازشریف کی سیاست کو فروخت کر کےخواری اوررُسوائی کو اپنے ماتھے کا جھومر بنایا، ۔ میں عمران خان سے متفق ہوں کہ ’’جنرل باجوہ کا دور غداری اور تباہی سے جُڑا تھا‘‘، اس میں شک نہیں کہ وہ شعوری طور پر ریاست کو کمزور کرنے کیلئے مستعد رہے۔
عمران خان بحیثیت مہرہ موجودہ حکومت کی طرح جنرل باجوہ کے ہاتھوں کھیل گیا۔ عمران خان پچھلے 5سال سے ملکی سیاسی میدان میں اکیلا تھا ،مسلم لیگ ن کی مفاہمتی سیاست نے یہ سہولت طشتری میںرکھ کر دی ہے کہ آج وہ پاکستانی سیاست اپنی گرفت میں لے چکاہے ۔25مئی کے لانگ مارچ کی شاندار ناکامی کے بعد وہ بھانپ چُکا ہے کہ الیکشن کے تلوں میں تیل نہیں ہے ۔بعد ازاں 26 نومبر کا آرمی چیف کیخلاف لانگ مارچ یا اسمبلیوں کی تحلیل یا جیل بھرو تحریک یا ریاستی اداروں پر تشدد حملے ، مقصد ریاست کو بے دم کرنا تھا۔ اندرونِ خانہ وہ قائل ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہدف نگراںسیٹ اَپ یاایمرجنسی یا مارشل لا رہے گا۔ اگر تشددکو ہوا دی تو اسٹیبلشمنٹ کیلئے سب کچھ ممکن رہے گا۔ جنرل باجوہ کے آخری سال یہی کچھ عزائم بھی تھے ۔جنرل باجوہ کا کیا دھرا ایک بوجھ بن چکا ہے۔جنرل عاصم کیلئے ریاست کو مشکلات سے نکالنا ایک مسئلہ بن چکا ہےجبکہ ریاست کو مشکلا ت میں ڈالنے کا ہر حربہ عمران خان کے استعمال میں ہے۔
حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ عمران خان کا ملک کو مارشل لا اور ایمرجنسی کے حوالے کرنے کا خواب اب تک تتر بتر رہا ہے۔ مگر انہوں نے ناقابل تلافی نقصان یہ کیا کہ پُرتشدد جتھوں کے ذریعہ ریاست کو اپاہج کرنے کی ریت جنم لے چکی ہے۔ نامساعد بین الاقوامی تناظر میں پاکستان نا ممکنات کے بھنور میں پھنسا ہے ۔ یہی کچھ عمران خان چاہتا ہے کہ اپنے سیاسی میدان سے نکلنے سے پہلے ریاست کو دوزانو دیکھے تب ہی تو اسٹیبلشمنٹ نے سر نگوں ہونا ہے۔ کیا عمران خان دوسرا رائونڈ بھی جیت چکا ؟ اسٹیبلشمنٹ سے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہو گیا ہے؟ ـ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں‘‘۔