خان کے سر سے دست شفقت ہٹانا فوج کا جرم کیوں بن گیا؟
میدان صحافت سے سیاست کی پرخار وادیوں میں اترنے والے معروف لکھاری اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کی فوج مخالف دشنام طرازیوں میں صرف اس لیے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اس نے انکے سر پر تنا ہوا سائبان عافیت کیوں اٹھا لیا ہے؟ انکے بقول مجھے یاد نہیں پڑتا کہ آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کو براہ راست میڈیا کے سامنے آ کر اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ ایک دھواں دھار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ کے طور پر کھری کھری سنا دیں اور کہہ دیا کہ ”دن کو جانور، میر جعفر اور میر صادق کہتے ہو تو راتوں کو چھپ چھپ کر ملتے کیوں ہو؟ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ افتخار بابر تو ابلاغیات کے فن پر کافی دسترس رکھتے ہیں لیکن ندیم انجم کی اردو کی تحسین بھی لازم ٹھہرتی ہے۔ انہوں نے کیا کمال کا جملہ کہا کہ ”جب جھوٹ اتنی آسانی، روانی اور فراوانی سے بولا جانے لگے تو سچ کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہوتی“ ۔ مختصرا ًیہ کہ جنرل ندیم انجم کی اردو دانی ان کی ”چہرہ نمائی“ کی طرح حیران کر گئی۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے کے خلاف مزاحمتی تنظیموں کا دست و بازو بنتے ہوئے آئی ایس آئی پیشہ ورانہ مہارت کی نئی بلندیوں تک پہنچی اور اس کا شمار دنیا کی صف اول کی ایجنسیوں میں ہونے لگا۔ یہ سب کچھ سانحہ بہاولپور میں شہید ہونے والے جنرل اختر عبدالرحمٰن کی قیادت میں ہوا۔
داخلی سیاسی اور خارجی عوامل کے شدید دباؤ کے باوجود جنرل اختر آخری لمحے تک میڈیا سے دور رہے۔ جہاں افغانستان میں ان کے اور آئی ایس آئی کے کردار کی تمام تفصیلات سانحہ بہاولپور کے بعد منظر عام آئیں۔ جنرل ندیم انجم نے بھی اپنے پیش رو سے قطع نظر میڈیا سے گریز کی اسی روایت کو پسند کیا۔ چنانچہ 27 ؍اکتوبر کو یکایک ان کی ”رونمائی“ کافی اچنبھے کی بات تھی۔ انہیں خود بھی اس کا اندازہ تھا۔ لہٰذا ابتدا میں ہی کہہ دیا کہ ”ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی واضح ہے۔ آج میں اپنی ذات کے لئے نہیں اپنے ادارے کے لئے آیا ہوں“ ۔ جنرل کی دلیل بجا تھی۔
بلاشبہ جھوٹ کے طومار اور بہتان کے انبار کے بعد روایت کی کھوہ سے نکلنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ فوج عمران خان کی طرف سے برہنہ، کرخت، بے ڈھب اور زہر ناک تنقید کی زد میں تھی۔ یہ تنقید نہیں، کھلی توہین، تضحیک اور دشنام طرازی تھی۔ نام لے لے کر اور نام دے دے کر زہر میں بجھے ایسے تیر برسائے گئے کہ ساری حدیں پامال ہو گئیں۔
یہاں تک کہ آرمی چیف کی تقرری کے نہایت حساس موضوع کو بھی ’متاع کوچہ و بازار‘ بنا دیا۔ گزشتہ پون صدی کے دوران فوج کے سیاسی کردار پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی۔ کبھی دھیمے، کبھی اونچے سروں میں۔ اس مرض کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں کیا گیا تھا۔
لمحہ فکریہ ہے کہ عمران نے فوج کو تختۂ مشق تب بنایا جب وہ سیاست سے دور ہو کر سختی سے اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود رہنے کا ادارہ جاتی فیصلہ کر چکی تھی۔ خان صاحب صرف اس لئے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں کہ فوج ان کی پدرانہ اور مادرانہ سرپرستی سے دستبردار ہو کر اپنے دستوری وظیفے کی طرف کیوں پلٹ گئی ہے؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان کے اس اضطراب کا تجزیہ مشکل نہیں۔ تحریک انصاف نے 1996 ء میں آنکھ کھولی۔ اگلے برس 1997 ء کے انتخابات میں کوئی نشست اس کے حصے میں نہ آئی۔ خود عمران خان آٹھوں نشستوں سے ہار گئے۔ انتخابی راستہ انہیں مشکل لگا۔ جلد ہی اکتوبر 1999 ء میں مارشل لا کا ناقوس بجا۔ بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ وجود میں آنے والی ایک نوزائیدہ جماعت کے پرعزم قائد کی حیثیت سے عمران کے سامنے دو راستے تھے۔
پہلا یہ کہ وہ ماضی کی متعفن روایات سے ہٹ کر آئین اور جمہوریت کی پاسبانی کے لئے سر مقتل آئیں اور پوری توانائی کے ساتھ وہ کچھ کہیں جو آج 23 برس بعد وہ ناروا طور پر کہہ رہے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ کہ وہ آئین، جمہوریت، عوامی حاکمیت اور تبدیلی کے نعروں کو غیر مستعمل بلے کی طرح کباڑ خانے میں پھینک کر آئین شکن ڈکٹیٹر کی انگلی تھامے اپنی منزل مراد کی طرف سفر کا آغاز کریں۔ تب خان صاحب نے آئین شکن کو جانور کہا نہ میر جعفر نہ میر صادق نہ کچھ اور۔ انہوں نے آمریت کی زنجیریں توڑ کر ”حقیقی آزادی“ کا نعرہ بھی نہ لگایا۔ انہوں نے رضا کارانہ خود سپردگی کے والہانہ پن کے ساتھ ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ خود کو جوڑ لیا۔ وہ تن من دھن سے مشرف کے رسوائے زمانہ ریفرنڈم کا ہر اول دستہ بن گئے۔
اس کے بعد خان نے معاوضے کے طور پر ڈکٹیٹر کے سامنے قومی اسمبلی کی 100 نشستوں کا بھاری بھرکم بل پیش کر دیا۔ مشرف نے کہا ”انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق آپ کی اوقات زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ سیٹیں ہیں۔ میں آپ کو آٹھ سے دس سیٹیں دے سکتا ہوں“ ۔ خان صاحب کے شیشۂ دل پر بال آ گیا۔ چنانچہ ناراض ہو کر الیکشن لڑا اور صرف اپنی نشست جیت پائے۔ لیکن یہ بات ان کی کتاب سیاست کا سنہری درس بن گئی کہ بارگاہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے صرف آمروں یا طاقت کے حقیقی سرچشموں کی اشیر باد ہی ثمر آور ثابت ہو سکتی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ وہ دن اور آج کا دن، خان صاحب اس درس کو نہیں بھولے۔ بس اپنی کشت ویراں کی منڈیر پر بیٹھے آسماں پہ نظریں جمائے سبر بہار کی دعا مانگتے رہے۔ لگ بھگ ایک عشرے کے بعد مارگلہ کی پہاڑیوں سے سرمئی گھٹا اٹھی تو خان صاحب کو لگا کہ تخم آرزو پھوٹنے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔
عروہ حسین کا فرحان سعید سے طلاق کی تصدیق سے گریز
پی ٹی آئی کی بلائیں لیتی ہواؤں کا پہلا بڑا مظاہرہ 2011 ء کا لاہوری جلسہ تھا۔ ستم یہ ہوا کہ رخصت کے لئے کمر بستہ آرمی چیف جنرل کیانی نے کھل کھیلتی خود معاملہ ہواؤں کو اپنی حدوں میں رہنے کا سخت حکم جاری کیا۔ مارگلہ سے اٹھنے والی گھنگھور گھٹائیں بن برسے اپنے ٹھکانوں کو پلٹ گئیں۔ جنرل کیانی کے رخصت ہوتے ہی ”انصاف پرور“ ہواؤں اور گھٹاؤں نے ایک بار پھر قیامت خیز انگڑائی لی۔ یہ توبہ شکن انگڑائی نواز شریف کی نا اہلی، آر ٹی ایس کی ناگہانی موت اور اس وقت کے ڈی جی، آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کے اس ٹویٹ پر ٹوٹی۔ ”و تعز و من تشاء و تذل و من تشاء“ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ ہواؤں اور گھٹاؤں کی سرشاری جاری رہی۔
وہ خان صاحب کی کشت ویراں کو آب زر سے سینچتی اپنے لہو میں گندھی کھاد ڈالتی اور اپوزیشن کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر مسلسل ”کرم کش“ ادویات چھڑکتی رہیں۔ پونے چار برس بعد پتہ چلا کہ اس کشت ویراں سے صرف خنجر نما کانٹے ہی اگ سکتے ہیں۔ شکستہ دل ہواؤں اور گھٹاؤں نے بستر سمیٹا اور اپنی گپھاؤں میں بکل مار کر بیٹھ گئیں۔ مسلح افواج نے عہد کیا کہ آئندہ وہ اپنی مقدس وردی کو سیاسی آلائشوں سے پاک رکھیں گی۔ یکایک خان صاحب لق و دق دشت بے اماں کی جلتی بلتی دھوپ میں تنہا رہ گئے۔ اب وہ فوج کے خلاف صرف اس لئے آگ اگل رہے ہیں کہ اس نے ان کے سر پر تنا سائبان عافیت کیوں اٹھا لیا ہے؟