جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی عزت کیسے بحال کروائی ؟
ملک میں آزاد عدلیہ کی علامت قرار دئیے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کی منصب پر براجمان ہونے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں ایسی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جن کا ماضی قریب میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ اب عدالت عظمیٰ میں نہ پکوڑوں سموسوں پر نوٹس لینے کی روایت نظر آتی ہے نہ ہم خیال بینچز کا وجود دکھائی دیتا ہے، نہ کسی کو گڈ ٹو سی یو کہا جاتا ہے اور نہ ہی لاڈلے کیلئے خصوصی بینچ بنائے جاتے ہیں، نہ عدالت میں ساسو ماں کے کسی کرش کو ریلیف دینے کا کوئی تصور موجود ہے اور نہ ہی کوئی ٹرک دے کر من پسند فیصلے لینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ یعنی مختصر لفظوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر قیادت سپریم کورٹ میں صرف آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے حلف اٹھاتے ہی اپنے عدالتی اختیارات اپنے ساتھی ججز میں تقسیم کر دئیے جبکہ انتخاطمی اختیارات بھی رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کر دئیے اور اپنا منصب سنبھالتے ہی ان تمام مقدمات کی سماعت کا آغاز کر دیا جن کو ہاتھ لگاتے ہوئے ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کے ہاتھ کانپتے تھے۔
پاکستانی عدالتی نظام کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں۔ انھی چیلنجز کی وجہ سے ایک مقدمہ اپنے حتمی فیصلے تک پہنچتے پہنچتے دہائیاں لے جاتا ہے، مقدمات کی تاخیر سے ہونے والے وقت اور پیسے کے ضیاع کو چند ہی لوگ جھیل پاتے ہیں اور اکثریت عدالتی ناانصافی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔پاکستان میں مختلف چیف جسٹس صاحبان نے نظام عدل کو موثر بنانے کے لئے مختلف طریقے اپنائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس کے لیے مشہور ہوئی اور اس روایت کو جسٹس افتخار چوہدری کے بعد آنے والے ایک اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اوج کمال تک پہنچایا۔ پھر سوموٹو شدید تنقید کی زد میں آیا تو میاں ثاقب نثار کے بعد آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہیوں کو نظام عدل کا اصلی ذمے دار سمجھا۔اپنی ابتدائی تقریر میں سابق چیف جسٹس آصف سعد کھوسہ نے کہا تھا کہ میں بھی ڈیم بنانا چاہتا ہوں لیکن جھوٹی گواہیوں کے خلاف ہوں، انہوں نے کچھ جھوٹے گواہوں کو سزائیں بھی سنائیں۔ جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں فیصلے کم اور مباحثے طویل ہوتے تھے۔
تاہم موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی بہت سے مواقع پر مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے مقدمات کی غیر ضروری طوالت، مقدمات کے متعلقہ فورمز پر تصفیہ نہ ہونے، وکلا کے تیاری کے لیے تاریخ مانگنے، سرکاری اداروں کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے کو نظام عدل کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور وہ اس پر کئی بار برہمی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔اکثر اوقات چیف جسٹس کے سامنے جب کوئی اپیل سماعت کے لیے مقرر ہوتی ہے تو وہ سوال کرتے ہیں کہ یہ اپیل سالوں بعد سماعت کے لیے کیوں مقرر ہوئی۔ وہ درخواست گزار سے سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے کوئی جلد سماعت کی درخواست دی۔ اور اگر نہ دی ہو تو اس آبزرویشن کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہیں۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے میں 10 نومبر کو اپیلوں کی سماعت کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس روز کی سماعت کے آرڈر میں لکھا کہ ’3 سال 8 ماہ گزرنے کے بعد اپیل کا سماعت کے لیے مقرر ہونا بدقسمتی ہے، عدالت کے بروقت اقدام نہ کرنے کا نقصان کسی بھی سائل کو نہیں ہونا چاہیے، چیمبر احکامات کے باوجود اعتراضات کے خلاف اپیل مقرر نہ ہوئی اور درخواست گزار کا انتقال ہوگیا‘۔
پنجاب میں انتخابات التوا مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ سب ادارے اپنے اپنے آئینی دائرہ اختیار میں کام کریں، ہم کسی ادارے کا کام نہیں کریں گے بلکہ ان اداروں سے کام کروائیں گے۔ چیف جسٹس آئین اور آئینی دائرہ اختیار کے بارے میں اکثر بات کرتے اور آئین پر عمل درآمد کے لیے زور دیتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدالت میں تیاری کر کے نہ آنے والے وکلاء پر بھی اظہار برہمی کرتے نظر آتے ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس میں پیمرا کے وکیل نے جب عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ابصار عالم کا جواب نہیں پڑھا تو اس بات پر انہیں اس قدر سرزنش کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے اپنا وکالت نامہ ہی واپس لے لیا۔اسی طرح سے 20 ستمبر کو ورکرز ویلفیئر فنڈ ترامیم کے خلاف درخواستوں پر جلد سماعت کی استدعا منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے وکیل کی تیاری نہ ہونے پر سرزنش کردی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنی ہیں تو کرلیں پھر ہم آپ کو جرمانہ کریں گے۔
حال ہی میں ٹاپ سٹی مقدمہ جس میں رئیل اسٹیٹ پراجیکٹ کے مالک نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر الزامات عائد کیے تھے، چیف جسٹس نے وکیل کو التوا دینے سے انکار کر دیا اور ان سے کہا کہ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کے لیے آئیں اور آج ہی فیصلہ کریں گے، ’آپ نے جو تیاری کرنی ہے اسی وقفے میں کر لیں اور پھر اسی دن وہ مقدمہ نمٹا دیا گیا‘۔
24 اکتوبر کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے درخواستوں کی ڈرافٹنگ صحیح نہ ہونے پر پاکستان بار اور پنجاب بار کو نوٹس جاری کر دیے۔ عدالت نے بار کونسلز سے تحریری جواب مانگا کہ بتائیں پنجاب کے لا کالجز میں ڈرافٹنگ سکھائی جاتی ہے یا نہیں۔پنجاب میں زمین کی تقسیم کے تنازع سے متعلق ایک مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کی درخواست واضح نہ ہونے پر سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ درخواست میں استدعا ہی درج نہیں ہے، پنجاب کے وکیل دعویٰ لکھنا کب سیکھیں گے، کیا پنجاب کے تمام لا کالجز بند کر دیں؟ عرضی نویس سے دعویٰ مرتب کروایا جاتا ہے، بتائیں کیا قانون عرضی نویس سے دعویٰ مرتب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ وکیل صرف عدالت میں کھڑے ہو کر دلائل دے گا؟۔ وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ دعویٰ لکھ کر اس کی تصدیق کر کے جمع کرائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی عدالت میں زیر سماعت مقدمات کیلئے دائر درخواستوں کی ڈرافٹنگ بارے جہاں وکلاء کو کھری کھی سنائیں وہین بغیر تیاری عدالت میں آنے اور مقدمات بارے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے پر درخواستگزاروں اور وکلاء پر جرمانے بھی عائد کئے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے 9 مرلہ زمین پر مالک کو بغیر معاوضہ ادائیگی روڈ بنانے پر حکومت پنجاب پر 10 لاکھ روپے جرمانہ کردیا۔عدالت نے جرمانے کی رقم بھی زمین مالک کو ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو 30 دن کے اندر زمین کی موجودہ ریٹ کے مطابق رقم ادائیگی کا بھی حکم دے دیا۔ فضول مقدمہ دائر کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایڈشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی سرزنش بھی کر دی۔
10 نومبر کو مقدمات کو غیر ضروری طوالت دینے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے درخواست گزار کو 10 لاکھ روپے جرمانہ کر دیا اور ریمارکس دیے کہ مقدمات کو جان بوجھ کر دیر تک چلانا وطیرہ بن گیا ہے، سارے عدالتی نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے، آہستہ آہستہ تمام معاملات کو بہتر کریں گے، اس مقدمے میں درخواست گزار جاوید حمید نے زمین ملکیت کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
26 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 34 سال بعد بھانجی کو ماموں سے 5 مربع زمین کا فوری قبضہ فراہم کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ماموں سردار منصور کو قانونی چارہ جوئی کے تمام اخراجات بھانجی کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
21 ستمبر کو ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو 5 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔ جرمانہ پراپرٹی کے کیس میں عدالت کا وقت ضائع کرنے پر کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے متعلقہ دستاویزات کی طرف پوائنٹ کرنے کے بجائے عدالت کا وقت ضائع کیا اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ جرمانے کی رقم اپنی مرضی کے خیراتی
پاکستان ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ فعال رکھنے پرمتفق
ادارے میں جمع کرا کے رسید پیش کریں۔