کیاالیکشن میں پیپلز پارٹی کا ہوم گراؤنڈ خطرے میں ہے؟
پاکستان میں آئندہ برس آٹھ فروری کو عام انتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں نے صف بندی شروع کر دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جہاں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان کیا ہے وہیں دوسری طرف پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کیلئے مولانا کی جے یو آئی، مسلم لیگ فنگشنل اور جی ڈی اے کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے اور قلعہ سندھ کو فتح کرنے کیلئے عملی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اپنی سلطنت میں سر اٹھاتی بغاوت پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنے کیلئے سیاسی سرگرمیاں بھرپور طریقے سے شروع کر دی ہیں شروع کر دی ہیں۔
الیکشن کے قریب آنے کے ساتھ ہی ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے لیکن ان دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے سندھ پر توجہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ سیاسی حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) سندھ میں سیاسی قوت بن سکتی ہے؟ کیا سندھ میں نئی صف بندی سے پیپلزپارٹی کو خطرہ ہے؟
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فیí الحال تو سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم قریب آئی ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں اس کی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ فنکشنل سے بھی کوئی سیاسی مفاہمت ہو سکتی ہے۔ایم کیو ایم کا سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں خاصا ووٹ بینک ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان تحریکِ انصافمیں ٹوٹ پھوٹ کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کی نظریں ان شہروں پر ہیں۔ اس اتحاد کے ذریعے مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی کو بھی ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم ماضی میں ایک بڑی سیاسی طاقت رہی ہے اور یہ جماعت تین دہائیوں تک شہر سے بلاشرکت غیرے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتی رہی ہے۔ تاہم گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم سے یہ برتری چھین لی تھی اور یہاں 21 میں سے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔اس بار کراچی کی مجموعی طور پر 22 نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی توقع ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے اعلان سے صورتِ حال کافی دلچسپ ہے اور یہ دونوں جماعتوں کے درمیان مجموعی طور پر چوتھا اتحاد ہو گا۔
صحافی اور تجزیہ کار، مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے لیے سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک سے زیادہ یہ اہم ہے کہ اُنہیں لگتا ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آ رہی ہے۔ لہذٰا اس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا زیادہ سیاسی فائدہ ہو گا۔اُن کے بقول دونوں جماعتوں کے درمیان پہلے بھی اتحاد رہا ہے اور جب جب مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان تین بار اتحاد ہوا اس وقت ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں آپریشن بھی ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) کا کراچی میں ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے اور 1993 میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے باعث مسلم لیگ (ن) کو کچھ نشستیں ملی تھیں۔مظہر عباس کہتے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں بلدیہ ٹاون کے علاقے سے شہباز شریف جیتتے جیتتے رہ گئے تھے اور ایسے میں اگر ایم کیو ایم کی حمایت ملے گی تو مسلم لیگ (ن) کو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ ایم کیو ایم کا کراچی میں تین دہائیوں کا انتخابی ریکارڈ متاثر کن رہا ہے۔ پارٹی نے 1988 میں پارلیمانی سیاست میں اپنے آغاز پر ہی 11 میں سے 9 سیٹیں حاصل کی تھیں۔سن 1990 میں ہونے والے انتخابات میں اس نے 11 میں سے 10 نشستیں حاصل کیں۔ تاہم 1993 میں پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا اور پھر 1997 میں یہ تعداد کم ہو کر نو رہ گئی۔سن 2002 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے 20 میں سے 12 نشستیں حاصل کی تھیں جب کہ 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں یہ جماعت قومی اسمبلی کی کراچی میں 20 میں سے 17 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
لیکن 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے 21 میں سے 14 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر کے مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ایم کیو ایم شہر سے محض 4 نشستیں حاصل کر سکی۔
انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی عبدالجبار کا خیال ہے کہ اگر ‘لیول پلیئنگ فیلڈ’ فراہم کی جائے اور انتخابات حقیقی طور پر آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں کرائے جائیں تو غالب امکان ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اب بھی کراچی سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں اس کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول اور الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہونے والی حلقہ بندیوں سے ایم کیو ایم بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔اُن کے بقول لیاری، کیماڑی اور ملیر کے علاقوں سے پیپلز پارٹی کو بھی کچھ نشستیں ملنے کی توقع ہے۔ تاہم ان کے خیال میں جماعتِ اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کئی جماعتوں کے ووٹ بینک کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم پر ماضی میں سیاسی مقاصد کے حصول اور الیکشن میں برتری کے لیے پرتشدد حربے استعمال کرنے کے بھی الزامات لگتے آئے ہیں۔کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 22 اگست 2015 کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی متنازعہ تقریر کے بعد جماعت کو ریاست کی جانب سے کئی چیلنجز درپیش ہوئے۔پارٹی کے سابق رہنما مصطفیٰ کمال کی جانب سے الگ جماعت کے قیام اور دیگر وجوہات کی بناء پر 2018 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی عوامی مقبولیت میں واضح کمی دیکھی گئی تھی جس کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا۔رواں سال جنوری میں ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں نے بلدیاتی انتخابات سے صرف چند روز قبل اختلافات بھلا کر پھر سے ایک ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔
کئی تجزیہ کاروں نے اس وقت پارٹی دھڑوں کے اںضمام کو اس خوف سے تعبیر کیا تھا کہ اگر یہ انضمام نہ ہوا تو ایم کیو ایم کی سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بعض ماہرین نے اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کراچی کی سیاست سے باہر رکھنے کے ‘گیم پلان’ کا حصہ قرار دیا تھا۔مظہر عباس کے خیال میں خود ایم کیو ایم کے لیے پھر سے کراچی کی سیاست میں ماضی والی برتری حاصل کرنا کسی چلینج سے کم نہیں ہو گا۔عبدالجبار کا کہنا ہے کہ آنے والے انتخابات سے قبل ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اپنا ہوم ورک مکمل کر کے میدان میں اترنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اس کا انحصار اپنے سابقہ ووٹرز پر ہو گا جنہوں نے پارٹی کی سیاست سے
جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی عزت کیسے بحال کروائی ؟
ناراضگی میں ووٹ تحریک انصاف کو ڈالا تھا۔