آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کے آؤٹ ہونے کے امکانات کیوں؟
جنوری کے آخری ہفتے یا فروری کے پہلے ہفتے میں عام انتخابات کے واضح امکانات سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے سیاسی محاذ سنبھال لیے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے چئیرمین اٹک جیل میں قید ہیں جبکہ عمرانڈو عتاب سے بچنے کیلئے بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئندہ انتخابات میں ماضی کی دو بڑی سیاسی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی ہی مد مقابل ہونگی یا تحریک انصاف بھی سیاسی میدان میں اپنی موجودگی کو ثابت کرے گی؟ مبصرین کے مطابق موجودہ حالات اور کیسز کے تناظر میں عمران خان کی انتخابات سے قبل جیل سے رہائی ناممکن دکھائی دیتی ہے جبکہ تحریک انصاف بحیثیت جماعت الیکشن میں ضرور موجود ہو گی۔ تاہم الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے زیر سماعت کیس میں پی ٹی آئی پر پارٹی نشان اور بطور سیاسی جماعت پابندی کے امکانات بھی موجود ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کے دوروں کے ساتھ اپنی غیر رسمی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور لاہور میں پارٹی اجلاس کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ وہ پورے ملک میں بھرپور انتخابی مہم چلائیں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی نواز شریف کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی مہم کا باضابطہ طبل بجا دیا ہے اور آنے والے دنوں میں ان کے استقبال کی تیاریوں اور تقریبات کے ذریعے عوامی رابطے کا آغاز کرے گی۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت پارٹی کی صف اول کی قیادت جیل میں ہے، اور دوسرے درجے کے رہنما گرفتاریوں سے بچنے کے لیے روپوش جبکہ متوقع امیدوار تذبذب کا شکار ہیں۔پی ٹی آئی ابھی تک اپنی انتخابی مہم کے خدوخال واضح نہیں کر سکی اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ وہ ابھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ابھی اس بات کا یقین نہیں کہ انتخابات ہوں گے، اور اگر ہوں گے بھی تو ان انہیں کس حد تک ان کا حصہ بننے کی اجازت ملے گی۔پی ٹی آئی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اس کے امیدواروں کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کے لیے انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہو گا۔اس غیر یقینی کے باوجود پی ٹی آئی کو توقع ہے کہ پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کی بڑی اکثریت اس کے امیدواروں کو ووٹ دے گی اور یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ وہ انتخابی مہم چلاتے بھی ہیں یا نہیں۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کا ہونا اتنا یقینی نہیں جتنا تحریک انصاف کا ان میں حصہ لینا ہے، اور الیکشن جب بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں تحریک انصاف ان میں حصہ لے گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے لیے انتخابی مہم چلانا اتنا ضروری نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اس پوزیشن میں ہے کہ انتخابی مہم چلائے بغیر بھی جیت سکتی ہے۔‘پی ٹی آئی کے امیدواروں کو درپیش مشکل حالات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’ان کی جماعت کے پاس ہر حلقے میں کئی امیدوار موجود ہیں اور پارٹی جسے بھی امیدوار کھڑا کرا کرے گی وہ کامیابی حاصل کرے گا۔‘انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’پی ڈی ایم کی بُری کارکردگی کی وجہ سے اس وقت ووٹروں کی 80 فیصد تعداد تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔‘
سینئر تجزیہ کار ضیغم خان ان توقعات سے مکمل اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ’پی ڈی ایم کی حکومت کی بُری کارکردگی کا فائدہ تو پی ٹی آئی کو ضرور ہو گا لیکن انہیں یہ الیکشن بحرانی کیفیت میں لڑنا پڑے گا۔‘
ان کے خیال میں ’پی ٹی آئی کو انتخابی مہم کے بحران کا تو سامنا ہے ہی، اسے ’امیدواروں کے بحران‘ کا بھی سامنا ہے۔‘ضیغم خان کہتے ہیں کہ ‘پی ٹی آئی کے پاس حلقوں کے لیے امیدوار بھی نہیں بچے۔ جو زیادہ تعداد ہے وہ چھوڑ چکی ہے، اور جو تھوڑی تعداد بچی ہے وہ جیلوں میں ہے۔‘’اس کے ساتھ جو میڈیا کے لوگ تھے اور میڈیا کوریج کا اہتمام کرتے تھے وہ بھی اب نہیں ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا کے لوگ، سوشل میڈیا کو آرگنائز کرنے والے، ٹرولز تک بھاگ چکے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جہاں تک الیکشن کی بات ہے تو تحریک انصاف کو اس میں ایک بحرانی صورت حال میں جانا ہے اور جو طریقہ بن پڑے گا اس کو آزمانا ہے۔ اب وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی کچھ نہ کچھ کوشش کر رہی ہے۔ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لیے الیکشن میں جو فائدہ ہے وہ دوسری جماعتوں کی غیر مقبولیت ہے۔‘’ان کے اپنے بیانیے سے زیادہ پی ڈی ایم حکومت کی ناکامی اور عوام کو درپیش مشکلات ہیں اور جس طریقے سے انہیں وہ پی ڈیم ایم بالخصوص مسلم لیگ ن کے ساتھ جوڑ رہے ہیں وہ تحریک انصاف کا انتخابات میں سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’انتخابات میں پی ٹی آئی کا امیدوار جو پی ڈی ایم مخالف اور مسلم لیگ ن مخالف ہو گا اسے بہت سارے فوائد بھی حاصل ہوں گے۔‘’تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس وقت پی ٹی آئی پر جو مشکلات ہیں ان کا
جسٹس بندیال نے آخری روز بھی اپنی عمرانداری برقرار رکھی؟
الیکشن میں اس کے امیدواروں کو نقصان بھی ہو گا۔‘