کیا تحریک انصاف شیخ رشید کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑے گی!

سینئر صحافی اور کالم نگار محمد بلال غوری نے کہا ھے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان سے محروم کئے جانے کے بعد اگر تحریک انصاف کو عدلیہ سے بھی ریلیف نہ ملا تو پی ٹی آئی اپنے اتحادی شیخ رشید احمد کی جماعت عوامی مسلم لیگ کے ذریعے قلم دوات کے انتخابی نشان پر امیدوار کھڑے کرسکتی ہے یا پھر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ دیگر 175سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ بھی اتحاد کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ایک کالم میں بلال غوری لکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے بین الجماعتی انتخابات کالعدم قرار دیئے جانے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لئے جانے کے بعد یہ جو بیانیہ سامنے آیاہے،اسے اختصار کیساتھ ان جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کھلاڑی بلے کے بغیر کیسے کھیلیں گے؟ یہ تو نہایت غیر منصفانہ اورامتیازی سلوک ہے۔چونکہ نونہالان ِانقلاب کی تاریخ 10اپریل2022ء سے شروع ہوتی ہے اسلئے وہ کسی بھی زیادتی کے بعد چیخ اُٹھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی مقبول ترین سیاسی جماعت کیساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ھے ۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو تلوار کا انتخابی نشان منتخب کیا گیا پیپلز پارٹی نے 1970ء اور پھر1977ء کے عام انتخابات تلوار کے انتخابی نشان پر لڑے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے نام کی مناسبت سے اس تلوار کو حضرت علی ؓکی تلوار کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ کراچی میں کلفٹن روڈ کے دو اہم ترین چوراہوں پر دو تلوار اور تین تلوار کے نام سے جو یادگاریں ہیں یہ منصوبہ دراصل پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 1973-74ء کے دوران مکمل ہوا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں حکومت مخالف پاکستان قومی اتحاد کو ’’ہل ‘‘کا انتخابی نشان دیا گیا تھا اور توقع یہ تھی کہ اس انتخابی نشان کیساتھ بھرپور مہم چلانا ممکن نہیں ہوگا لیکن پی این اے نے سماں باندھ دیا اور ہر طرف ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ’’ہل نے مچادی ہلچل‘‘۔جنرل ضیاالحق عنان اقتدار پر قابض ہوئے تو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے دوران تلوار کو انتخابی نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 1988ء کے عام انتخابات میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں حصہ لینا تھا مگر تلوار کا انتخابی نشان نہ مل سکا۔ چنانچہ تیر کا انتخابی نشان لے لیا گیا۔جیالوں نے صورتحال کی مناسبت سے یہ نعرہ لگایا کہ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے تو انتخابی نشان تلوار تھا ،اب چیئر پرسن بینظیر ہے تو انتخابی نشان تیر ہے۔ تمام تر رکاوٹوں کے باجود پیپلز پارٹی نے ان انتخابات میں میدان مار لیا۔ بلال غوری بتاتے ہیں کہ بعدازاں طویل جدوجہد کے بعد پیپلز پارٹی 2018ء میں پرانا انتخابی نشان تلوار لینے میں کامیاب ہوئی۔ اب الیکشن کمیشن کے پاس پیپلز پارٹی کے نام سے دو جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جسکے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اس کا انتخابی نشان تلوار ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین جس کے چیئرمین آصف زرداری ہیں اسکا انتخانی نشان تیر ہے ۔یعنی نانا کی میراث بلاول نے سنبھال رکھی ہے جبکہ بینظیر کا نشان آصف زرداری کے پاس ہے۔ اس حساب سے بلے کا نشان پاکستان تحریک انصاف کے بعد پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے پاس جا سکتا ہے جو پرویز خٹک کے نام رجسٹرڈ ہے ۔بہر حال جس طرح پیپلز پارٹی کو تلوار کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا تھا، اسی طرح کا سلوک چند برس بعد مسلم لیگ (ن) کیساتھ ہوا۔ میاں نوازشریف طویل ماضی میں سائیکل کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتے چلے آرہے تھے مگر 1993ء کے عام انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کو سائیکل کے انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا۔ میاں نوازشریف کو چارو ناچار نئے انتخابی نشان شیر کیساتھ انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔مسلم لیگ(ن)کو اس الیکشن میں شکست ہوئی مگر پھر شیر کا انتخابی نشان نہیں چھوڑا گیا۔ بعدازاں سائیکل کا انتخابی نشان مسلم لیگ (ق)کے حصے میں آگیا۔ مسلم لیگ (ن)کو دوسری بار اس طرح کی صورتحال کا سامنا 2018ء میں سینیٹ انتخابات کے دوران کرنا پڑا۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہوچکے تھے، ٹکٹ جاری کئے جاچکے تھے، سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے فیصلہ دیا کہ چونکہ نوازشریف تاحیات نااہل قرار پائے ہیں لہٰذا وہ کسی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے کے اہل نہیں رہے اور بطور پارٹی سربراہ انہوں نے جو فیصلے کئےہیں، وہ کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑاتو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ تب تو اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ہی سیاسی بندوبست کیا جارہا تھا اسلئے کوئی جائے پناہ نہیں تھی مگر تحریک انصاف کو یہ گوشہ عافیت میسر ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو اگر عدالتوں سے ریلیف نہیں ملتا تو ایسی صورت میں بھی کئی متبادل آپشن موجود ہیں۔ بیرسٹر گوہر علی جو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعدپی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں رہے ،ان کا یہ موقف درست نہیں کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائیگی۔ مخصوص نشستیں ایک انتخابی نشان پر کامیابی حاصل کرنیوالی جماعتوں میں تقسیم کی جاتی ہیں اور پی ٹی آئی کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد کرکے یہ حصہ وصول کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف اپنے اتحادی شیخ رشید کی جماعت عوامی مسلم لیگ کے ذریعے قلم دوات کے انتخابی نشان پر امیدوار کھڑے کرسکتی ہے یا پھر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ دیگر 175سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ بھی اتحاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ پی ٹی آئی شروع سے بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی چلی آئی ہے اور اب بلے کے بغیر الیکشن لڑنا دشوار ہوگا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے امیدواروں نے ’’چراغ ‘‘کے انتخابی نشان پر حصہ لیا۔ مقبولیت اور قبولیت کی منازل طے کرنے کے بعد بھی ’’بلا‘‘ عمران خان کی پہلی ترجیح نہیں رہا۔ 2013ء میں الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی کہ ’’ترازو‘‘کا انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔جماعت اسلامی بھی ’’ترازو‘‘کی دعویدار تھی اور 1970ء کے انتخابات میں ’’ترازو‘‘کے انتخابی نشان پر حصہ لینے کے باعث اس کا مقدمہ مضبوط تھا تو پی ٹی آئی کو ’’بلے‘‘کے انتخابی نشان پر اکتفا کرنا پڑا۔ اب بھی

دنیا بھر میں 25 دسمبر کو کرسمس کیوں منایا جاتا ہے؟

’’چراغ‘‘نہ سہی ’’کوئی جادو کا چراغ‘‘بطور انتخابی نشان لیا جاسکتا ہے ۔

Back to top button