سپریم کورٹ میں ججز کے اختلافات، چیف جسٹس مشکل میں؟
سینئر صحافی اور کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس بات پر بہت شور مچایا ہے کہ فل کورٹ سماعت کے دوران ججز نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اختلاف کر کے پہلے دن ہی ان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں حالانکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر ججز کی اپنی اپنی سوچ ہے، آئینی و قانونی تشریحات میں اختلاف ہونا، معمول کا عدالتی عمل ہوتا ہےچیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ نے کھلی عدالت میں برادرججز کو ایک دوسرے کے ساتھ قانونی دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے کا پورا موقع دیا ہے۔ ہمیں ججز کے دلائل کو دیکھنا چاہیے، ان دلائل کو اختلاف نہیں کہنا چاہیے۔ یہ ایک صحت مند نظام انصاف کی نشانی ہے، اس کو روکنا غلط تھا، اس اختلاف کو ہونے دینا درست ہے۔ اپنے ایک کالم میں مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے پہلے دن ہی فل کورٹ کا نہ صرف اجلاس بلایا بلکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فل کورٹ سماعت بھی کی۔ یہ سماعت پوری قوم نے براہ راست دیکھی۔ 2019سے اس ملک کی سپریم کورٹ میں کوئی فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا۔ جو کام چار سال سے نہیں ہوا تھا وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک دن میں ممکن کر دیا ہے۔ جس کام کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اناکا مسئلہ بنایا ہوا تھا، وہ کام موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہایت آسانی سے کر دیا حالا نکہ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز میں بہت تقسیم ہے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے فل کورٹ ممکن نہیں۔ یہ سب دلیلیں اور مفروضے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ فل کورٹ سماعت ہو گئی ہے جسے ساری قوم نے دیکھ لیا ہے۔ مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ فل کورٹ سماعت ججز کے درمیان ایک بہترین مکالمہ تھا۔ ججز کی تیاری بھی خوب تھی۔ سب کے دلائل انتہائی مدلل اور پرمغز تھے تاہم وکلاء کی تیاری نہایت بری تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان کی تیاری پوری نہیں تھی، ان کے پاس ججز کے دلائل اورسوالات کے کوئی جواب نہیں تھے۔ وہ قانونی سوالات پر ایسے کھڑے نظر آرہے تھے جیسے طالب علم کو امتحانی سینٹر میں پیپر نہ آتا ہو تو وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ اگر چیف جسٹس خود یہ نہ چاہتا ہو کہ مقدمے کا فیصلہ کیا ہونا چاہیے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ساتھی ججز کی کیا رائے ہے اور وہ مقدمے کا کیا فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی رائے ضرور دی ہے لیکن کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو، انھیں قبول ہوگا، اس لیے ان کو کوئی پریشانی نظر نہیں آئی ہے۔ پہلی دفعہ قوم کو دیکھنے کا موقع ملا کہ ان کے ججز کی قانون اور آئین کے بارے میں کیا سوچ ہے۔ وہ اہم قانونی اور آئینی معاملات کو کیسے دیکھتے ہیں،ان کی سوچ اور منطق کیا ہے۔ مزمل سہروردی بتاتے ہیں کہ فل کورٹ میں یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا چیف جسٹس کے اختیارات ایک کمیٹی کو دینے سے عدلیہ کمزور ہوگی یا عدلیہ مضبوط ہوگی۔ عدلیہ کی مضبوطی کا مطلب مضبوط چیف جسٹس ہے یا مضبوط سپریم کورٹ ۔ کیا ہم چیف جسٹس کو تمام اختیارات دے کر عدلیہ کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ ویسے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹول نہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کھلی عدالت میں کہا کہ انھیں زیادہ اختیارات نہیں چاہیے۔ اگر ان کے اختیارات کم ہوتے ہیں تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ وہ خوش ہوںگے۔ شاید وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہوںگے جو اپنے اختیارات ایک کمیٹی کو دینے کے لیے تیارہیں۔ یہی فرق چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس صاحبان عمر عطاء بندیال، ثاقب نثار اور گلزار سے ممتاز کر رہا ہے۔
ایک طرف طاقت واختیارات کے دلدادہ نظر آرہے جنھوں نے اپنے اختیارات اور طاقت کے لیے سب کچھ کیا، دوسری طرف طاقت سے بے نیاز چیف جسٹس نظر آرہا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ ججز میں تقسیم ہے، چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو بھی پتہ ہے کہ کون ان کا ہم خیال ہے کون نہیں ہے۔ لیکن وہ سب کی رائے سے چلنے کے لیے تیار ہیں۔ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ نے پہلے دن ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ عدلیہ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ انھوں نے مارشل لا کی توثیق سے لے کر تمام غلط فیصلوں کی بات کی ہے۔ ریکوڈک میں پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانے کی بھی بات کی ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ ایسے
کیاPPPپنجاب اور PMLN سندھ فتح کر پائے گی؟
اختیارات نہیں چاہتے، مطلب وہ ایسے فیصلے بھی نہیں کرنا چاہتے