آئندہ انتخابی معرکے کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے نیب قوانین کے بارے میں جو فیصلہ کیا اس کی روشنی میں متعدد سیاسی رہنماؤں کے خلاف پینڈورا باکس پھر سے کھل گیا ہے۔ جسٹس بندیال کے اس فیصلے کے نہ صرف پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کی باز گشت آئندہ آنے والے عام انتخابات میں بھی سنائی دے گی۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام مرکزی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نیب کیس پھر سے کھلنے والے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ کنور دلشاد کا مزید کہنا ہے کہ جسٹس بندیال کے نیب ترامیم بارے فیصلے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 89 ، مسلم لیگ ن کے 62، تحریک انصاف کے 47، ایم کیو ایم کے آٹھ، پاکستان مسلم لیگ ق اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے 12، 12، اعجاز الحق کی جماعت، عوامی نیشنل پارٹی کے 11 ارکان اسمبلی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی خلاف نیب کیسز دوبارہ کھلنے جا رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران اور پرائیویٹ کاروباری اور سرمایہ کار بھی قومی احتساب بیورو کے ریڈار پر آ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تقریباً 1809 ریفرنسز اور انکوائریاں جبکہ 700 ارب روپے کے مبینہ کرپشن کیس دوبارہ کھل گئے ہیں۔سابق صدر مملکت، سات وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ، 78 وزرا اور 1170 ارکان صوبائی اسمبلی اور 114 افسران کے کیس بھی ازسرنو احتساب عدالتوں میں چلے گئے ہیں۔
کنور دلشاد کے مطابق چونکہ پاکستان میں اشرافیہ کا مضبوط فعال گروپ متحرک ہو چکا ہے اور نگران حکومت کاروبارِ حکومت چلا رہی ہے، لہٰذا سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست حکومت پاکستان دائر نہیں کرے گی۔متاثرہ فریق کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کرنے کا مکمل استحقاق حاصل ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی مطلوب افراد کی فہرست اس فیصلے کی روشنی میں حاصل ہو جائے گی تاکہ وہ فہرست متعلقہ ریٹرننگ افسران کو بھجوائی جا سکے۔ جو ان ملزمان کے کاغذات نامزدگی کی منظوری یا انھیں مسترد کرنے بارے فیصلہ کریں گے۔
کنور دلشاد کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج عمر عطا بندیال نے اپنے آخری فیصلے میں قومی احتساب بیورو ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قرار دے دیا ہے۔ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی قومی احتساب بیورو قانون میں ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں میں واپس بھیجنے اور تمام تحقیقات اور انکوائریاں بحال کرنے کے احکامات دیے ہیں۔تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے ابھی مزید رکاوٹیں موجود ہیں۔ دراصل سابق چیف جسٹس کو یہ فیصلہ 17 ستمبر سے پیشتر دینا چاہیے تھا۔ فیصلہ اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے دینے کا مقصد پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔
کنور دلشاد کے بقول سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پارلیمنٹ کے ایکٹ کو کالعدم قرار دینے سے متعلق فیصلے کے نتیجے میں آئندہ چند مہینوں کے دوران عدالتوں میں کئی مقدمات چلیں گے اور کچھ سزائیں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔ ان سزاؤں کی زد میں نہ صرف عام اراکینِ اسمبلی بلکہ کچھ بڑی سطح کے رہنما بھی آ سکتے ہیں۔
کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھا کر اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کا احسن طریقے سے آغاز کر دیا ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف صدر مملکت عارف علوی سے لیا جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ان کے خلاف اثاثوں کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ریفرنس دائر کیا تھا۔جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سازش کا تن تنہا مقابلہ کیا اور کامیابی سے الزامات کا دفاع کیا جس میں ان کی اہلیہ سرینا فائز عیسیٰ کا بھی بنیادی کردار تھا۔ ان کے خلاف ریفرنس ناکام ہو گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ کے کئی مشہور کیسوں کے فیصلے کیے جن کے اثرات دیر تک محسوس کیے گئے۔قوم توقع کر رہی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سابق چار چیف جسٹسوں کے متنازع فیصلوں کی حقیقت جاننے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی مقرر کر کے قوم کو آگاہ
پرویز الٰہی کو کیمپ جیل لاہور میں رکھے جانے کا انکشاف
کریں کہ ان کے سابق چیف جسٹس کن مصلحتوں کے تحت فیصلے کرتے رہے۔