تحریک انصاف پر پارلیمانی سیاست کے دروازے مکمل بند؟

انتخابی نشان سے محروم تحریک انصاف پر پارلیمانی سیاست کے دروازے بند ہوگئے۔ قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن رولز 2017 کے رولزکے مطابق آئندہ انتخابات میں آزاد امیدوار کامیابی کی صورت میں اسی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکیں گے جسے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان جاری کیا ہوا۔ رولز کے تحٹ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کرسکیں گے۔

خیال رہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہ کرنے پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف انتخابی دوڑ سے باہر ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

انتخابی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد تحریک انصاف کے پارلیمانی سیاست کے دروازے بھی بند ہورہے ہیں۔اس حوالے سے الیکشن رولز 2017 کے سیکشن 94 کے مطابق آزاد امیدوار 3روز میں سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان کرے گا اسی رولز 94 میں وضاحت کی گئی ہے۔ سیاسی جماعت کا مطلب وہ جماعت ہے جسے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان جاری کیا گیا ہو۔ الیکشن رولز کے مطابق آزاد امیدوار اسی سیاسی جماعت میں شمولیت کرے گا جسے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان جاری کیا گیا ہو اور تحریک انصاف کو انتخابی نشان جاری نہیں کیا گیا اس لئے جیتنے والے عمرانڈوز کا تحریک انصاف میں شامل ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

دوسری جانب سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے مطابق الیکشن کمیشن میں باقاعدہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی حیثیت سے ریکارڈ پر موجود ہے، البتہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کی خلاف ورزی کی وجہ سے انتخابی نشان سے محروم ہے۔انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کے آزاد امیدوار آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے مطابق پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے وابستگی کا ذکر کیا ہوا ہے۔تحریک انصاف کے امیدوار سلمان اکرم راجہ نے برملا اعتراف کیا کہ انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم پر خود کو تحریک انصاف کا امیدوار لکھا ہے۔انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے جاری ٹکٹ بھی ریٹرننگ آفیسر کو جمع کرایا ہے تو ان کو آزاد امیدوار کیسے کہا جا سکتا ہے؟یہی کیفیت پی ٹی آئی کے تمام آزاد امیدواروں کی ہے اور انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم پر پارٹی وابستگی ظاہر کر رکھی ہے۔

کنور دلشاد کے مطابق آٹھ فروری کو انتخابات کے فوری بعد اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے بعد تمام آزاد اراکان کو آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت ہدایات دی جائیں گی کہ وہ تین دنوں کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں تاکہ ان کی شمولیت کے بعد مخصوص نشستوں کا کوٹہ مقرر کیا جا سکے۔چونکہ تحریک انصاف کے آزاد ارکان اسمبلی نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم پر تحریک انصاف کی وابستگی ظاہر کر رکھی ہے، لہٰذا وہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے قانونی سہارا تلاش کریں گے۔تحریک انصاف نے اگر قانونی جنگ کا فیصلہ کر لیا کہ چونکہ ان کی پارٹی الیکشن کمیشن میں قانونی طور پر رجسٹرڈ ہے، لہٰذا آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شمولیت کی قانونی طور پر اجازت دی جائے تو سپریم کورٹ اس موڑ پر اہم ترین فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔تب تک آئینی بحران برقرار رہے گا اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس نہ ہو سکیں گے۔

اگر سپریم کورٹ نے آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شمولیت کی اجازت دے دی تو حکومت سازی میں ان کا اہم کردار ہو گا۔وہ کسی بھی ہم خیال سیاسی جماعت سے اتحاد کر کے حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ پارٹی کی قیادت وکلا کے ہاتھوں میں ہے اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے مفاہمت کر کے حکومت سازی کا حصہ بن سکتے ہیں۔قائد ایوان، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے لیے آزاد ارکان اسمبلی کا اہم کردار سامنے آئے گا۔

موجودہ سیاسی ماحول میں اگر الیکشن نتائج میں تحریک انصاف کو اکثریتی ووٹ مل بھی جاتے ہیں تو قائد ایوان کے انتخاب کے لیے 166 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔بظاہر تحریک انصاف کی اپنی ماضی کی پالیسی کی وجہ سے ان کو اتحادی نہیں مل سکیں گے اور امکان ہے کہ حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی اور تین درجن سے زائد دیگر آزاد ارکان پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کر کے قائدِ ایوان منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔لیکن ایسی حکومت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہو گی اور آئے دن تحریک عدم اعتماد کا خدشہ رہے گا۔ آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو ہر بار آزمایا جا سکتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آنے والی حکومت گرا دی گئی تو پھر ملک میں معاشی، سیاسی، خارجی اور داخلی اثرات سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ممکن ہے کہ سیاسی نظام کو ہنگامی حالات کی

پرانے سیاستدان نفرت کی سیاست کررہےہیں

صورت میں لپیٹ ہی دیا جائے۔

Back to top button