تھینک یو اسرائیل!
تحریر : یاسر پیر زادہ
بشکریہ: روزنامہ جنگ
اللہ نے زندگی تو نہ جانے کتنی لکھی ہے مگر جتنی بھی لکھی ہے شکر ہے کہ اُس میں اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیا کہ جس ’مہذب مغربی دنیا‘ سے ہم متاثر تھے وہ محض توہم کا کارخانہ تھی۔ یہ کیسے ہوا، اِس کیلئےمیں اسرائیل کا شکر گزار ہوں جس نے گزشتہ ایک برس میں جس سفاکی اور بے شرمی سے فلسطینیوں کی نسل کُشی کی، اُس سے ہماری کم ازکم سات غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔
پہلی غلط فہمی مغربی ممالک کی تہذیب اور شائستگی سے متعلق تھی۔ گزشتہ ایک برس میں جس طرح امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سمیت مغربی دنیا نے اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکی ہے اُس نے مغرب کے فلسفے اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب کسی مغربی مفکر اور دانشور میں یہ اخلاقی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں اور جمہوری آزادی کس چڑیا کا نام ہے۔ سڈنی سے لے کر نیویارک تک اِس حمام میں سب ننگے ہوگئے ہیں۔ اِس موضوع پر اگر آپ نے کوئی ایک مضمون پڑھنا ہو تو وہ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر حامد دباشی کا ہے جو مڈل ایسٹ آئی میں اِس سال جنوری میں شائع ہوا۔ پروفیسر دباشی لکھتے ہیں:’’ ذرا تصور کریں کہ اگر ایران، شام، لبنان یا ترکی، جنہیں روس اور چین کی مکمل فوجی اور سفارتی حمایت حاصل ہو، تین ماہ تک دن رات لگاتار تل ابیب پر بمباری کریں اور دسیوں ہزاروں اسرائیلیوں کو قتل کردیں، لا تعداد لوگوں کو اپاہج بنا دیں، لاکھوں افراد کو بے گھرکر دیں اور شہر کو ملبے کے ڈھیر میں اِس طرح تبدیل کردیں جیسے آج غزہ ہے، تو کیاہوگا؟ یہی نہیں بلکہ یہ بھی تصور کریں کہ ایران اور اس کے اتحادی جان بوجھ کر تل ابیب کی شہری آبادی، اسپتالوں، عبادت گاہوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں، کتب خانوں یا گنجان آباد علاقوں کو محض اِس لیے نشانہ بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شہری ہلاک ہو سکیں اور اِس کے جواب میں وہ دنیا کو محض یہ بتا کر بری الذمہ ہوجائیں کہ ہم تو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور اُس کی جنگی کابینہ کو تلاش کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل، غزہ کےشہری علاقوں پر بمباری کا یہ عذر پیش کر رہا ہے کہ اسے تو دراصل حماس کے دہشت گردوں کی تلاش ہے، تو بتائیں کیا ہوگا؟ یعنی اگر سچ مچ ایسا ہوتا تو اِس فرضی حملے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا اور خاص طور پر جرمنی کیسا رد عمل دیتے؟‘‘ میری رائے میں اسرائیلی جارحیت اور مغربی مفکرین کی بے حیائی کو اِس سے بہتر انداز میں بے نقاب نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری غلط فہمی مغرب کے سیکولرازم سے متعلق تھی، وہ بھی دور ہوگئی۔ آخری تجزیے میں مغربی دنیا اتنی ہی مولوی نکلی جتنا وہ ہمیں سمجھتی تھی۔ اسرائیل کی حمایت سے اُن کا خبث باطن آشکار ہو گیا اور اُن کے اندر کی اسلام دشمنی باہر آگئی جو اب چھپائے نہیں چھپ رہی۔ اگر کسی کو اِس بات میں غلو کا شائبہ ہو تو وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کی تقریر سُن لے۔ تیسری غلط فہمی یہ دور ہوئی کہ امریکہ اور مغرب میں شخصی آزادی پائی جاتی ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے۔ امریکہ کی جامعات میں جہاں جہاں احتجاج ہوا وہاں وہاں پولیس نے جس طرح پروفیسروں کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے گرفتار کیا، اگر اِس طرح بیجنگ یونیورسٹی میں کیا جاتا تو مغربی میڈیا میں چین کے خلاف طوفان اٹھا دیا جاتا۔ ادھر جرمنی میں تو یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو سانپ سونگھا ہوا ہے، کسی میں جرات نہیں کہ ریاست کی اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف چوں بھی کرے، اِس وقت اِن مغربی ممالک میں شخصی آزادی اور جمہوریت گھاس چرنے میں مصروف ہے، جب انہیں فرصت ملے گی تو ایران، پاکستان اور چین کے بارے میں بتائیں گے کہ وہاں جمہوریت کس قدر کمزور ہے، اور پھر مختلف اشاریے بنا کر نہایت ڈھٹائی سے ہماری جمہوریت کی درجہ بندی بھی کریں گے۔
چوتھی غلط فہمی اُس سوچ کے بارے میں دور ہوئی کہ جب تک کوئی قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال حاصل نہ کرلے اُس وقت تک اپنے سے زیادہ طاقت ور سے ٹکر نہ لے۔ اگر اِس سوچ کو درست مان لیا جائے تو اِس کا مطلب ہوگا کہ دنیا میں کمزور، ان پڑھ، لاچار اور مجبور شخص کو جینے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ اگر ایسا شخص اپنے حق کیلئے کسی طاقت ور کو للکارے گا تو لامحالہ طاقت ور شخص اُس کی نسل مٹادے گا، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی گاؤں کا چوہدری اپنے مزارع کی لڑکی کو اٹھا کر لے جائے اور اُس کا ریپ کردے تو اِس اصول کے تحت پہلے اُس مزارع کو مینجمنٹ سائنس کی ڈگری حاصل کرنی چاہیے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے اور اُس کے بعد چوہدری سے مذاکرات کرکے پوچھنا چاہیے کہ جناب والا آپ میری بچی کو اٹھا کر لے گئے تھے تو میں اُسی سلسلے میں حاضر ہوا ہوں۔ اِسی سے جُڑی ہوئی پانچویں غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ اگر ہمارے پاس سائنس، ٹیکنالوجی اور فوجی قوت ہوتی تو اسرائیل کو فلسطین کے خلاف جنگی جرائم کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ ہم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ مسلمان ممالک کمزور ہیں؟ پاکستان سے لے کر مصر تک، اور ترکی سے لے کر ملائشیا تک، کوئی ملک فوجی قوت ہے تو کوئی معاشی دیو، عرب ممالک اِس کے علاوہ ہیں جن کے پاس لا محدود وسائل ہیں، لیکن اِس کے باوجود اسرائیل کو ہاتھ لگانے کی کوئی جرات نہیں کر رہا۔ سو، اِس سے وہ دلیل اپنے آپ فوت ہوجاتی ہے کہ پہلے طاقت حاصل کرو پھر اسرائیل سے نمٹنا۔ چھٹی غلط فہمی بھی ملتی جلتی ہے کہ آزادی کی عیاشی اسی صورت میں نصیب ہوگی جب ہم علم و ہنر کے ذریعے خود کو اُس آزادی کے قابل بنا لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم و ہنر کا ہوش اُس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک انسان آزادی حاصل نہ کرلے۔ غزہ کے شہریوں نے اپنے لیے اِس زندگی کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ یہ زندگی اُن پر اسرائیل نے تھوپی ہے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ فلسطینیوں نے پہلے دن سے ہی اسرائیل کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہوں، ایک طویل تاریخ ہے جو گواہ ہے کہ فلسطینیوں نے ہر پُر امن طریقہ اپنا کر دیکھا اور اُس کے بعد مجبوراً مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا جسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے۔
ساتویں اور آخری غلط فہمی پاکستان کا مذہبی طبقہ بھی دور کر لے کہ اِن تمام غلط فہمیوں کا یہ مطلب نہیں کہ اُن کے بیانیے کی جیت ہوگئی ہے۔ اِس مذہبی طبقے کی وہی سوچ ہے جو مغربی ممالک کی اسرائیل کے حوالے سے ہے، جس طرح اُن میں اسلام دشمنی چھُپی ہے بالکل اسی طرح ہمارے مذہبی طبقات میں دوسرے مذاہب کیلئے نفرت ہے اور وہ نفرت پوشیدہ بھی نہیں بلکہ علانیہ ہے، کسی بھی صورت میں اسلام میں اِس کی گنجائش نہیں۔ اگر ہمارے مذہبی طبقات فلسطین کی واقعی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے خود پر وہ جمہوری اور قانونی اصول لاگو کریں جس کی توقع وہ بین الاقوامی برادری سے کرتے ہیں، وگرنہ ایسی خالی خُولی حمایت کا کوئی فائدہ نہیں۔
ڈی چوک میں لال گلاب کا تختہ