امیربالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم طیفی بٹ کا بہنوئی مار دیا گیا

ٹیپو ٹرکاں والا کے بیٹے امیر بالاج کی مخبری کر کے اسے قتل کروانے والے احسن شاہ کی ایک پولیس مقابلے میں ہلاکت کے چند ہی روز بعد 2 ستمبر 2024 کو بالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ کو بھی لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ قتل کا مقصد امیر بالاج کی موت کا بدلہ لینا ہے اور اسی لیے طیفی بٹ کے بہنوئی کو قتل کیا گیا ہے جو بالاج کے قتل کے روز ہی بیرون ملک فرار ہو گیا تھا۔ یاد رہے کہ احسن شاہ نے طیفی بٹ سے ساڑھے چار کروڑ روپے وصول کر کے اپنے جگری دوست امیر بالاج کی مخبری کی تھی جس کے بعد اسے لاہور میں ایک شادی کی تقریب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ احسن شاہ کو امیر بالاج کے قتل میں مفرور ہو جانے والے طیفی بٹ کی سہولت کاری کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا اور پھر چھ ماہ بعد اگست 2024 میں ایک پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا تھا۔

امیر بالاج کے قتل کی ایف آئی آر میں ان کے مخالفین طیفی بٹ اور گوگی بٹ کو نامزد کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق احسن شاہ کے پولیس مقابلے میں مارے جانے اور اس سے پہلے موقع پر ہی شوٹر کو بھی ختم کیے جانے کے باعث یہ مقدمہ انتہائی کمزور ہو گیا ہے۔

پروفیسر کی گرفتاری کا عمرانڈو جج کی جعلی ڈگری سے کیا تعلق تھا ؟

اہم بات یہ ہے کہ سی آئی اے پولیس کے ایک سب انسپکٹر شکیل بٹ، امیر بالاج کے قتل کے موقع پر بھی وہاں موجود تھے اور اب احسن شاہ کو بھی مزید تفتیش کے لیے گذشتہ ہفتے جیل سے نکلوانے والے شکیل بٹ ہی تھے۔ احسن شاہ کا خاندان اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس مطالبے کے زور پکڑتے ہی جمعرات کو ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی جس میں مبینہ طور پر احسن شاہ کو اپنی اہلیہ سے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’میں جلد باہر آ رہا ہوں اور جس نے مجھے گرفتار کیا تھا اس کے بارے میں ایک سرپرائز دوں گا۔‘

اس آڈیو ٹیپ کے تناظر میں سب انسپکٹر شکیل بٹ کی مدعیت میں احسن شاہ کی اہلیہ، طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے خلاف قتل کی سازش کا ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے احسن شاہ کے مبینہ پولیس مقابلے کا پرچہ بھی انہی کے سگے بھائی کے خلاف درج ہوا تھا۔

لاہور کے انڈر ورلڈ کی اس گھمبیر لڑائی میں آئے دن حقائق بدلنے سے یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پولیس بھی ’وکٹ کے دونوں طرف‘ کھیل رہی ہے۔اس سارے معاملے سے آگاہ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کچھ چیزیں سمجھنے کے لیے صرف کامن سینس کی ضرورت ہوتی ہے۔ امیر بالاج کو جس طرح قتل کروایا گیا اس منصوبہ بندی میں یہ شامل تھا کہ حملہ آور فوری مارا جائے گا۔‘انہوں نے بتایا کہ ’پرچے میں طیفی بٹ اور گوگی بٹ بھی نامزد ہیں لیکن امیر بالاج کے قتل کی رات تین بجے طیفی بٹ لاہور ایئرپورٹ سے لندن روانہ ہوا۔ قتل کے اس مقدمے میں اہم ترین گواہ احسن شاہ تھا کیونکہ ریکی اور دیگر ثبوت بتاتے ہیں کہ قتل کروانے میں اس کا مرکزی کردار تھا اور اس کو بالاج کے مخالفین نے استعمال کیا۔ اب احسن شاہ کے مرنے سے وہ قتل کا کیس تو تقریباً ختم ہو گیا۔‘پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’تھوڑی باریکی سے دیکھا جائے تو آڈیو ٹیپ سے معلوم ہوتا ہے کہ احسن شاہ کو یہ جھانسہ دینا کہ اسے باہر نکلوا لیا جائے گا اور اس پولیس افسر سے متعلق بھی سرپرائز دیا جائے گا، یہ سب ایک منصوبہ بندی تھی تاکہ اس کے منہ سے یہ گفتگو ریکارڈ کروائی جائے۔ حقیقت میں ایک بہت بڑا کور اپ کیا گیا ہے، اب کچھ عرصے بعد طیفی بٹ واپس آ جائے گا کیونکہ اس کے خلاف کیس صاف ہو چکا ہے کوئی گواہ ہی نہیں رہا۔‘

لاہور پولیس اس موضوع پر بالکل بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ البتہ پنجاب پولیس کے سابق آئی جی خواجہ خالد فاروق کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت پرانی لڑائی ہے اور دونوں دھڑے ہی بڑے طاقتور ہیں، اور ایک دوسرے کے اندر گھسے ہوئے ہیں اور انہیں بڑی طاقتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کچھ پولیس افسران بھی اس سارے معاملے میں ان گروہوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے کرپٹ افسران کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔‘سابق آئی جی پنجاب سے پوچھا گیا کہ جب وہ پولیس کے سربراہ تھے تو اس مسئلے سے کیسے نمٹا گیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گینگز کی لڑائی اور دشمنی بڑے افسران تک اس وقت پہنچتی ہے جب لڑائی مار کٹائی والے اپنا مقصد حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔‘زیادہ سے زیادہ انسپکٹر اور ڈی ایس پی کی حد تک افسران ہی براہ راست اس میں دیکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ گینگز سیاسی پشت پناہی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے یہ لڑائی چل رہی ہے اور پولیس کے پاس اس کو کنٹرول کرنے کی کوئی استعداد نہیں ہے نہ کوئی طریقہ کار ہے اس لیے اس کا کوئی انت بھی نہیں ہے۔‘

Back to top button