خواجہ آصف کو قتل کی دھمکی دینے والے عمرانڈوکا انجام قریب

لندن میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی گاڑی کے پیچھے باولے کتوں کی طرح بھاگنے والے بے لگام یوتھیوں نے اب وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کو قتل کی دھمکیاں دے کر اپنے پاوں پا کلہاڑی مار لی ہے۔ عمرانڈوز کی جانب سے بیرون ملک بد تہذیبی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کےلیے وفاقی حکومت سے ملوث عناصر کو نہ صرف کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اسے واقعات میں ملوث افراد کی سرکوبی اور بیخ کنی کےلیے ٹھوس حکمت عملی بھی مرتب کر لی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت وزیر دفاع خواجہ آصف نے چاقو سے قتل کرنے کہ دھمکی دینے اور غالب گلوچ کرنے پر باقاعدہ شکایت درج کروا دی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس طرح کی دھمکیاں دینے والے افراد کی نہ صرف نشاندہی کی جائے گی بلکہ الزام ثابت ہونے پر سخت سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں خواجہ آصف لندن میں ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ ایک اسٹیشن پر اُترتے ہیں تو اُن کے پیچھے موجود ایک شخص اُنہیں گالیاں دیتا ہے اور اس دوران یہ کہتا ہے کہ "یہاں آپ پر چاقو سے بھی حملہ ہو سکتا ہے۔”

خواجہ آصف ایک دوست کے ہمراہ خاموشی سے پلیٹ فارم پر اُتر کر چلے جاتے ہیں جب کہ ویڈیو بنانے والا شخص اس میں اپنا چہرہ ظاہر نہیں کرتا۔

جمعرات کو خواجہ آصف لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پہنچے جہاں اُنہوں نے اس معاملے سے متعلق مقامی پولیس کو شکایت درج کرا دی ہے۔خواجہ محمد آصف نے پولیس کو ٹرین میں چھری سے قتل کی دھمکی اور ہراساں کرنے کے واقعے سے متعلق آگاہ کیا۔ جس کے بعد واقعے کی تحقیقات لندن ٹرانسپورٹ پولیس کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی پاکستانی سیاست دان یا اہم شخصیت کو ملک سے باہر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سابق آرمی قمر جاوید باجوہ، وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت دیگر شخصیات بھی اس نوعیت کے واقعات کا سامنا کر چکی ہیں۔

خواجہ آصف کے شکایت درج کروانے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک سے باہر کسی کو دھمکی دینے پر کوئی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟ ایسے واقعات میں ملوث یوتھیوں کو کیا سزا ہو سکتی ہے؟

برطانیہ میں مقیم ماہرِ قانون بیرسٹر امجد ملک بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے برطانیہ میں قانون موجود ہے مگر قانون تب ہی حرکت میں آتا ہے جب متاثرہ شخص اِس کی شکایت کرتا ہے۔ ‘کانسپریسی ٹو کمٹ کرائم’ کے تحت اگر کوئی شخص نفرت کی بنیاد پر کسی کو گالی نکالتا ہے اس کی عزتِ نفس پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔اُن کے بقول بعض کیسز میں جرم ثابت ہونے پر لوگوں کو اپنی ملازمت سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔

بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ ‘ہیٹرڈ ایکٹ’ کے تحت ایسا نہیں ہے کہ جب تک کوئی ایک شخص کسی دوسرے شخص کو ہاتھ لگاتا ہے تو جب ہی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے بلکہ دھمکی دینے پر بھی شکایت کنندہ کی درخواست پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں نفرت آمیز واقعہ ہونے پر شکایت کنندہ پولیس کو تحریری درخواست دیتا ہے جس پر پولیس شواہد اکٹھے کرتی ہے اور شکایت درج کر لیتی ہے۔ بعد ازاں تحقیقات میں الزامات ثابت ہونے پر ملزم کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس شوکت جاوید کہتے ہیں کہ دھمکی دینے والے شخص کے خلاف پاکستان اور برطانیہ کے ادارے قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔

شوکت جاوید کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ویڈیوز میں دھمکی دینے والے اور نفرت پھیلانے والے لوگوں کی شکلیں آ جاتی ہیں۔ اُس سے اُن کی شناخت ہو جاتی ہے۔اُن کے بقول تحقیقاتی ادارے عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کر سکتے ہیں اور دیگر طریقوں سے بھی شواہد اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔

یوتھیے عمران کی احتجاج کی فائنل کال سے متفق کیوں نہیں؟

تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ اگر برطانوی قانون کسی بھی نفرت پھیلانے والے شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا تو ایسے شخص کے خلاف پاکستان میں بیٹھ کر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

 اُن کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانونی پہلو سے زیادہ اخلاقی پہلو زیادہ ضروری ہے جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو سوچنا اور کام کرنا چاہیے۔اُن کا کہنا تھا کہ نفرت پھیلانے والے افراد کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اُس کی روک تھام کریں۔

Back to top button