پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی شروع

وفاقی حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان اور دیگر غیر ملکی شہریوں کے لیے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد اب ایسے تمام لوگوں کی ملک بدری کے لیے ایک گرینڈ آپریشن شروع کر دیا۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو جون 2024 تک ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد ملک بدری کے لیے کارروائی کا انتباہ بھی کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد 1979 میں افغانستان پر سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت پاکستان میں 14 لاکھ سے ذیادہ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی حکومت کے بعد ایک بار پھر افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے جن میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اسلام آباد کے راستے دیگر ممالک کا سفر کرنا تھا۔ ان میں سے بھی ہزاروں لوگ ابھی تک پاکستان میں ہی مقیم ہیں کیونکہ انہیں امریکہ کے ویزے نہیں مل سکے۔ دوسری جانب پاکستانی عہدے دار کہتے ہیں کہ ملک میں ہونے والے کئی ’دہشت گرد‘ حملوں میں افغان شہری ملوث تھے لہٰذا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بھی غیر قانونی طور پر یہاں مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

سرحد پار سے تحریک طالبان کے جنگجوئوں کے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ افغان شہریوں کی ملک بدری بھی پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں میں 90 فیصد سے زیادہ افغان شہری ہیں جن کو ملک بدر کرنے کی کارروائی تیز کر دی گئی ہے۔ 2024 کے آخر میں وفاقی حکومت نے فیصلہ بھی کیا تھا کہ اسلام آباد میں 31 دسمبر، 2024 کے بعد سے غیر قانونی طور پر کسی بھی افغان شہری کو رہنے کی اجازت نہیں ہو گی اور جو یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں ضلعی حکومت سے ایک سرٹیفیکیٹ لینا ہو گا۔ اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں تقریباً 800 افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے پاس درست ویزا، پروف آف رجسٹریشن اور افغان شہری کارڈز  موجود ہیں۔

تاہم اسلام آباد کی انتظامیہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ان افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں مقیم ایسے افغان شہری جن کے پاس درست سفری اور قیام کی دستاویزات موجود ہیں، مثال کے طور پر پروف آف رجسٹریشن کارڈز، افغان شہری کارڈز، یا ویزا، انہیں واپس نہیں بھیجا جا رہا۔ دوسری جانب پاکستان افغان جرنلسٹ فورم کے صدر قمر یوسف زئی نے کہا ہے کہ حراست میں کینے کے بعد جن افراد کو ملک بدر کیا گیا ان میں افغان صحافی اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ قمر کے بقول حال ہی میں جن افغان صحافیوں کو ملک بدر کیا گیا ان کی ’زندگیوں کو بھی خطرات‘ لاحق ہو سکتے ہیں، کیوں کہ طالبان حکومت سے قبل ان کا میڈیا میں کردار خاصا متحرک رہا۔انکے مطابق کئی ایسے افغان خاندان بھی ہیں جن کے بعض افراد یہاں رہ گئے ہیں اور بعض کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس طرح وہ منقسم ہو گئے۔

پاکستان میں مقیم خان واہدی نامی ایک افغان شہری کا کہنا ہے کہ حالیہ گرفتاریوں سے افغان شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں کیوں کہ ان سے سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ تاہم اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ تلاشی اور چھان بین کی کارروائیوں کے دوران انتظامیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قانون پر عمل درآمد ہو اور دستاویزات نہ رکھنے والے غیر ملکی باشندوں کو اپنی قانونی حیثیت درست کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ انہوں نے نے کسی ملک کا نام لیے بغیر بتایا کہ ’2025 میں اسلام آباد سے مجموعی طور پر 183 غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کیا گیا جب کہ دو غیر قانونی باشندے حراستی مراکز میں ہیں۔ انکے مطابق یہ بات اہم ہے کہ ملک بدر کیے گئے ان افراد کے پاس پاکستان میں قیام کے لیے کسی قسم کی قانونی دستاویزات موجود نہیں تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام قانون کے عین مطابق کارروائی کر رہے ہیں اور صرف انہی افراد کو ہدف بنایا جا رہا ہے جو درست دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہے۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت پہلے ہی واضح کر چکی تھی کہ افغان شہری 31 دسمبر، 2024 کے بعد اسلام آباد کی حدود میں نہیں رہ سکیں گے، اور اگر ان کو رہنا ہو گا تو ان کو ڈپٹی کمشنر آفس سے این او سی لینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نومبر 2024 میں کہا تھا کہ ہم ان افغان شہریوں کو ہر طریقے سے اطلاع کریں گے، لیکن 31 دسمبر کے بعد کوئی افغان شہر این او سی کے بغیر اسلام آباد میں نہیں رہ سکے گا۔ افغان سفارت خانے نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ این او سی کے تقاضوں اور اس کے اجرا کا عمل واضح  نہ ہونے کی وجہ سے غیر ضروری گرفتاریوں اور ملک بدری کے پریشان کن واقعات پیش آئے ہیں۔ سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افراد میں 137 ایسے افغان باشندے بھی شامل ہیں جن کے ویزے ختم ہو چکے تھے، لیکن انہوں نے پہلے ہی ان کی تجدید کے لیے درخواست دی ہوئی تھی جب کہ انسانی حقوق اور قیدیوں کی مدد کے لیے قائم تنظیم شارپ اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر میں عارضی طور پر رجسٹر افراد کو بھی ملک بدر کیا گیا۔

خیال رہے کہ حکومت نے ستمبر 2023 کو اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی، جن میں غالب اکثریت افغان مہاجرین کی ہے، وہ یکم نومبر سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں۔ بعدازاں اس مدت میں 31 دسمبر، 2023 اور پھر 30 جون، 2024 تک توسیع کر دی گئی تھی۔ جون 2024 کے بعد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو گرفتار کر کے ان کی ملک بدری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، جس بعد گرفتاریوں کے خوف سے بھی لاکھوں افغان پاکستان چھوڑ گئے۔

عمران کے فوج مخالف ٹویٹ نے مذاکراتی عمل کیسے تارپیڈو کیا ؟

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں دہائیوں سے مقیم افغانوں کی واپسی کا حالیہ سلسلہ ستمبر 2023 میں شروع ہوا اور 15 دسمبر، 2024 تک سات لاکھ 95 ہزار 607 مہاجرین اپنے وطن واپس جا چکے تھے۔ اس سے پہلے جولائی 2024 میں حکومت نے ملک میں قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن کارڈز کی مدت میں جون 2025 تک کی توسیع کر دی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ آر سی‘ کے مطابق پی او آر کارڈز رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد تقریباً 14 لاکھ ہے۔

Back to top button