اسلام آباد میں احتجاج کی ناکامی سے عمران کو دھچکا، کارکنان مایوس

اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے چار اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے اور علی امین گنڈاپور کی زیر قیادت احتجاج کرنے کی کال بری طرح ناکام ہونے سے نہ صرف قیدی نمبر 804 کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان پہنچا ہے بلکہ تحریک انصاف کے کارکنان بھی سخت مایوس ہوئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی احتجاج کی کال ناکام ہونے سے کارکنان کے حوصلے پست ہوئے ہیں اور حکومت کو فائدہ ہوا ہے۔

یاد رہے عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ میری اپنی قوم کے ہر فرد سے اپیل ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کے لیے نکلے اورعلی امین گنڈاپور کے قافلے کا حصہ بنے۔‘ یہ پیغام عمران خان کے ’ایکس‘ کے اکاؤنٹ سے تب پوسٹ ہوا تھا جب کنٹینروں اور رکاوٹوں سے گھرے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنان بلیو ایریا کے اختتام پر واقع ڈی چوک پہنچنے کی کوشش میں تھے اور اطراف کی فضاؤں میں آنسو گیس کی بو رچی ہوئی تھی۔ دراصل یہ معاملہ  حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف حتجاج کی کال سے شروع ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں خیبرپختونخوا سے کارکنان کو علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ’پر امن‘ احتجاج کے لیے ڈی چوک پہنچنا تھا۔ پارٹی قیادت جس انداز سے اسلام آباد پہنچنے کا کہہ رہی تھی اور مظاہرین کو روکنے کے لیے جیسی رکاوٹیں لگائی گئی تھیں، اس میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ اب ڈی چوک پر مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج نہیں بلکہ غیر معینہ۔مدت کے لیے دھرنا بھی ہو سکتا ہے جو جیل میں قید عمران خان کے مطالبات تسلیم ہونے تک جاری رکھنے کا منصوبہ تھا۔ تاہم جو کچھ ہوا وہ پی ٹی آئی ورکرز کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔

تحریک انصاف والوں کا احتجاجی منصوبہ اس حوالے سے ناکام رہا کہ نہ تو اس کے ورکرز ڈی چوک تک پہنچ پائے اور نہ ہی اس کی قیادت کہیں نظر آئی۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران نے احتجاج اور دھرنے کی ذمہ داری وزیراعلی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور کا سونپی تھی جو پہلے بھی کئی مواقع پر یہ ٹاسک پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ عمران کا خیال تھا کہ اس مرتبہ علی امین گنڈاپور کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جن سے ان کہ ساکھ مزید مجروح ہو اور ان پر مخالفین کے ساتھ مل کر کھیلنے کا الزام لگے۔ لیکن گنڈاپور ایک مرتبہ پھر خود کو سونپی گئی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے اور حیرت انگیز طور پر 24 گھنٹے کے لیے غائب ہو گئے۔ علی امین گنڈاپور کہ غائب ہونے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے یہ الزام لگایا کہ ایجنسیوں نے انہیں اغوا کرلیا ہے۔ تاہم کے پی اسمبلی کے اجلاس میں ان کے اچانک ظہور پذیر ہونے سے یہ الزام جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو گیا خصوصا جب گنڈاپور نے خود یہ تسلیم کر لیا کہ وہ گرفتار یا اغوا نہیں ہوئے تھے بلکہ چھپے ہوئے تھے۔ اس حرکت کے بعد علی امین کے بارے میں یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ کیا وہ اتنے قابل اعتماد ہیں جتنا عمران نے ان پر بھروسہ کیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ گنڈاپور کو اسمبلی میں کھڑے ہو کر ایک گھنٹے کی وضاحتی تقریر کرنا پڑی جس میں انہوں نے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار ببھی بھائی لوگوں کے پاس نہیں تھے بلکہ خود ہی چھپے ہوئے تھے۔

علی امین گنڈاپور کا ڈی چوک سے خیبرپختونخوا ہاؤس جانے کا فیصلہ پارٹی قیادت اور کارکنان کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں ہے چونکہ اس ایک حرکت نے احتجاجی کال کی ہوا خارج کر دی۔ پارٹی ورکرز کی رائے میں اگر علی امین گنڈاپور خیبرپختونخواہ ہاؤس جانے کی بجائے ڈی چوک پر ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو وہاں دھرنا دے کر حکومت کو عمران خان سے مذاکرات پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ علی امین گنڈاپور نے ایسا کیا ہو۔ اس سے پہلے لاہور جلسے میں بھی وہ تاخیر سے پہنچے تھے اور ان پر یہ الزام عائد ہوا تھا کہ انہوں نے بھائی لوگوں کے ساتھ پہلے سے ہی طے کر رکھا تھا کہ وہ جلسہ ختم ہونے کے بعد لاہور میں داخل ہوں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم رکوانے کا یہ اخری چانس تھا جو انہوں نے کھو دیا ہے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گنڈاپور نے نہ صرف عمران کا اعتماد مجروح کیا ہے بلکہ اب وہ اسلام اباد جانے کے قابل بھی نہیں رہے کیونکہ ان پر اسلام آباد پولیس کے ایک اہل کار کے قتل کی ایف آئی ار بھی درج ہو گئی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام اباد میں احتجاج کی کال ناکام ہونے سے تحریک انصاف کو سخت سیاسی نقصان پہنچا ہے اور اس سے اس کی عوامی طاقت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ویسے بھی با بار احتجاج کی کالیں ناکام ہونے سے پارٹی ورکرز میں مایوسی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی نسبت اس مرتبہ اسلام آباد پہنچنے والے پی ٹی آئی کارکنان کی تعداد کافی کم تھی۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ علی امین کپتان کے پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حلقوں میں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ علی امین گنڈاپور اپنی تقریروں سے بھی پوری طرح اپنی پوزیشن کلئیر نہیں کر سکے۔

عمران نے منصور شاہ سے حکومت فارغ کرنے کی امید کیوں لگا رکھی ہے ؟

خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام اباد میں غائب ہونے کے بعد خیبرپختونخوا ہاؤس میں ہی چھپے ہوئے تھے جہاں پولیس چھاپے کے باوجود انھیں ڈھونڈ نہ سکی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی کے ورکرز گنڈاپور کے اس دعوے پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ اس بار بھی بھائی لوگوں کے پاس چلے گے تھے۔ بعض پارٹی ورکرز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلی کے پی محمود خان کی طرح علی امین گنڈاپور بھی اچانک عمران خان کو دھوکہ دے کر دوسری طرف جا سکتے ہیں۔

ادھر رہنما پی ٹی آئی شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’خیبرپختونخوا ہاؤس میں چھپنے اور وہاں سے نکل کر پشاور پہنچنے کے حوالے سے علی امین نے سب بتا دیا ہے۔ اور ہمیں ان کا یقین کرنا چاہیے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا حالیہ پاور شو دو دن تک جاری رہا۔ اس دوران یعنی چار اکتوبر سے چھ اکتوبر کی شام تک ایک بے یقینی کی صورتحال رہی مگر پی ٹی آئی کی قیادت میں صرف علی امین گنڈاپور کا نام نمایاں رہا۔ خیال رہے کہ گنڈاپور پی ٹی آئی کے صوبائی صدر ہونے کے علاوہ صوبے کے انتظامی سربراہ بھی ہیں۔ ایک طرف وہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں سے نبرد آزما رہتے ہیں تو دوسری جانب انھیں اپنی جماعت میں بھی اختلاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قیادت کے فقدان سے متعلق سوال پر شوکت یوسف زئی نے کہا کہ ’صرف ایک شخص پر ساری ذمہ داریاں ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ اس میں باقی قیادت کو بھی سامنے آنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ پارٹی قیادت خصوصا پنجاب سے تعلق رکھنے والے مرکزی رہنما احتجاج کی کال کے باوجود منظر عام پر کیوں نہیں آئے اور گھر بیٹھ کر ویڈیو پیغامات کیوں جاری کرتے رہے۔ شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ پارٹی پالیسی کے تحت تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ احتجاج میں آئیں اور تا کہ مجوزہ آئینی ترامیم روکنے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اسلام آباد کے احتجاج کے لیے بالکل نہیں نکلی اور اسی لیے پارٹی کارکنان بھی بہت کم تعداد میں باہر آئے جس سے پی ٹی آئی کا احتجاج مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔

Back to top button