آرمی چیف، صدر اور وزیراعظم کا عمرانی فتنہ ختم کرنے کا حتمی فیصلہ
عمران خان کی مسلسل غیر دانشمندانہ اور ہر تشدد حکمت عملی نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی بجائے اور بھی قریب کر دیا ہے اور اب صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف پر مبنی طاقتور ٹرائیکا عمرانی فتنے کے خاتمے کا فیصلہ کر چکا ہے جس پر عمل درامد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے یہ ذہن بنا لیا ہے کہ اگر معیشت کو بچانا ہے اور ملک آگے لے کر جانا ہے تو عمرانی فتنے کا خاتمہ سب سے ضروری ہے۔ فیصلہ ساز یہ نتیجہ نکال چکے ہیں کہ عمران کی جانب سے مسلسل جلسے جلوسوں کا بنیادی مقصد سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ہے تا کہ اس سے معاشی عدم استحکام پیدا ہو اور ملکی معیشت برباد ہو جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ایک پیج پر یکجا کھڑینہو چکی ہے اور عمران خان مکمل ائیسولیشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے حکمران ٹرائیکا یعنی صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ تینوں کا اتفاق ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور بحالی کی جانب گامزن ملکی معیشت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری ملکی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں حکمران ٹرائیکا کے دیگر دو ارکان کے مکمل حامی ہیں۔ ایک سینئیر سیاستدان کا کہنا تھا کہ ’’آپ کو اندازہ نہیں کہ صدر مملکت اس وقت معیشت کو بچانے کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹرائیکا منظم و پر عزم ہے کہ نظام کو غیر مستحکم ہونے نہیں دیں گے اور بحالی کی جانب گامزن ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔
فیصلہ کن جنگ میں عمران خان بچے گا یا اسے بنانے والے بچیں گے؟
ابصار عبادی خے نطابق یہ حقیقت عالمی مالیاتی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیوں نے بھی تسلیم کی ہے کہ ملکی معیشت بحال ہو رہی ہے۔ آئینی پیکج کی منظوری میں حکومت کی حالیہ ناکامی کے بعد صدر مملکت کی ہدایت پر پیپلز پارٹی وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور میثاقِ جمہوریت کی شقوں کے مطابق ججوں کی تقرری کا نیا نظام متعارف کرانے کےلیے اتفاق رائے کے حصول کےلیے سرگرم ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ صدر زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے آئینی بل کی حمایت کی درخواست بھی کی ہے۔ جن معاملات میں پیپلز پارٹی حکومت یا نون لیگ سے خفا ہو جاتی ہے وہاں صدر زرداری مداخلت کرکے معاملات کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ کابینہ کے اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ مخلوط حکومت عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو 2014 کے دھرنے جیسے اقدامات کو دہرانے کی اجازت نہیں دے گی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی خیال ہے کہ پی ٹی آئی اپنے سیاسی فائدے کی خاطر مسلسل ملک کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
عدلیہ کے حوالے سے، خصوصی نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 12؍ جولائی کے اکثریتی (8:5) فیصلے کے بعد سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے حق میں اکثریت کا فیصلہ دینے والے 8؍ ججز کے 14 ستمبر کی وضاحت نے موجودہ سیٹ اپ کے مختلف اہم لوگوں کے خدشات کو مزید بڑھا دیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں 25؍ اکتوبر سے زیادہ دیر ہوئی تو اداروں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی اور پارلیمنٹ کو نقصان ہوگا۔ بلاول نے بعض معاملات میں عدلیہ کے اقدامات کے وقت پر بھی تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ مخصوص نشستوں پر حکم امتناع کے وقت کی سکروٹنی کیوں نہیں ہو رہی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 14؍ ستمبر کو پارلیمانی اجلاس کے دن عدلیہ کی جانب سے 4؍ صفحات کی وضاحت جاری کی گئی جس سے عدالتی وقت پر سوالات اٹھائے گئے۔ ان حالات میں ایک آئینی عدالت کا قیام ضروری ہو چکا ہے تاکہ کوئی بھی جج کسی بھی منتخب حکومت کو یرغمال بنانے کی پوزیشن میں نہ رہے۔