کیا پاک چین سی پیک کا مستقبل اب بھی روشن ہے؟
اقتدار میں آنے کے بعد سے پاک چین سی پیک منصوبے کے ساتھ بے اعتنائی برتنے والے وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ پہنچنے کے بعد چینی سرمایہ کاروں کو منصوبے کے روشن مستقبل کے حوالے سے یقین دہانیاں تو کروائی ہیں لیکن اندر کی خبر رکھنے والوں کو اس کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کپتان حکومت اب بھی سی ہیک پروجیکٹ کامیاب بنانے میں سنجیدہ نہیں اور وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ چین بھی بنیادی طور پر تین ارب ڈالرز کا قرضہ حاصل کرنے کے لئے ہے۔
واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں پر کام ہو گا۔ سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی بنیاد 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں رکھی گئی تھی۔ ’ون پلس فور‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
حکومت سے تعلق رکھنے والے کئی سینئر وزراء کا کہنا ہے کہ سی پیک پروجیکٹ کبھی بھی عمران خان کی ترجیح اس لیے نہیں رہی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے تحت ہوئے معاہدوں کا زیادہ فائدہ چین کو ہے۔ انکا کہنا یے کہ اگر آپ صرف گوادر بندرگاہ کا معاہدہ ہی دیکھ لیں تو اس میں 91 فیصد ریوینیو شیئر چین کا ہے اور باقی پاکستان کا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا اور کس کا مفاد زیادہ ہے۔
اندر کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ سی پیک کے بہت سارے دیگر منصوبوں کی طرح پاکستان چین اقتصادی راہداری کا سب سے مہنگا پروجیکٹ ایم ایل ون بھی اس وقت تقریبا رک چکا ہے کیونکہ بیجنگ اس مہنگے پروجیکٹ کی فنانسنگ کے حوالے سے شرائط کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہے جبکہ اسلام آباد ایسا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ پروجیکٹ چھ بلین ڈالرز سے زیادہ کا ہے، جس کو پاکستان ریلوے کی بحالی کے لیے بہت اہم گردانا جاتا ہے۔ چین کی نئی شرائط نے پاکستانی حکومتی حلقوں میں یہ سوال بھی پیدا کردیا ہے کہ آیا سی پیک کا مستقبل تاریک ہے یا روشن۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کچھ عرصے سے یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ بیجنگ پاکستان سے اضافی گارنٹیز یا یقین دہانیاں مانگ رہا ہے۔ لیکن پاکستان چین پر یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ کوئی اضافی گارنٹی نہیں دے گا اور یہ کہ کام مقتدر گارنٹی پر ہی ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کبھی کسی قرضے پر ڈیفالٹ نہیں ہوا۔
بتایا جاتا ہے کہ چین ایم ایل ون منصوبے کی فنانسنگ کے حوالے سے شرائط میں تبدیلی چاہتا ہے اس لیے ایم ایل ون منصوبے پر اب کوئی عملی کام ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر کام شروع کر کے دراصل چین پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ وہ اس کی شرائط تسلیم کر لے۔ لیکن ابھی اس معاملے پر ڈیڈ لاک چل رہا ہے۔
پاکستان کے معروف تن ساز یحییٰ بٹ انتقال کرگئے
یاد رہے کہ پاکستان میں سی پیک کی بنیاد ایک ایسے وقت میں رکھی گئی تھی جب پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ناکام ملک کا لقب دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بارے میں پاکستان کو یہی تاثر ملا کہ چین دوست ہے اس لیے سرمایہ لگاتا ہے۔
اس دوران سی پیک کے بارے میں ’گیم چینجر‘جیسے الفاظ بھی استعمال کیے گئے لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اس لیے پاکستان میں سرمایہ نہیں لگا رہا کہ وہ پاکستان کا دوست ہے، بلکہ وہ پاکستان میں اپنا معاشی مفاد دیکھ رہا ہے حکومتی ذرائع کا کہنا یے کہ اس وقت سی پیک کے صرف ان منصوبوں پر کام جاری ہے جن پر پہسہ کم لگے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک عام تاثر یہی ہے کہ سی پیک منصوبے ترقی کے لیے بہت اچھے ہیں لیکن ان سے قرض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم چونکہ سڑکوں اور ہائی وے بنانے پر قرض کی شرح نہیں بڑھتی اس لیے ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جا رہا ہے۔
سی پیک کے منصوبوں میں ایک بری رکاوٹ آئی ایم ایف کی سفارشات کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دیتے ہوئے دو اہم شرطیں رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ پاکستان کسی بھی ملک سے کیے گئے معاہدوں کے بارے میں اپنی فنانس بُک آئی ایم ایف کو دکھائے گا جبکہ سی پیک منصوبوں کی شرح سود رازداری میں رکھی جاتی ہے۔
اس دوران پاکستان نے فنڈ حاصل کرنے کے لیے سی پیک سے متعلق فنانس بُک اور منصوبوں کی شرائط کا آئی ایم ایف سے تبادلہ کیا۔ آئی ایم ایف کے فنڈ سے متعلق عام تاثر یہ ہے کہ وہ رعایتی ہوتے ہیں جبکہ سی پیک کا قرض کمرشل ریٹ پر ہوتا ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف نے پاکستان سے کئی بار کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے فنڈ کو سی پیک سے جڑے منصوبوں کا قرض چکانے میں استعمال نہیں کرے گا اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنا قرض کم کرے۔ تاہم پاکستان پر اس وقت چین کو دینے والا قرض آئی ایم ایف کے قرض سے تین گنا زیادہ ہو چکا ہے۔
سی پیک کے بارے میں ایک حکومتی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 2018 میں آنے والی تحریکِ انصاف کی حکومت سی پیک اور اس سے منسلک منصوبوں کو تشویش سے دیکھتی تھی۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ چین کی جانب پاکستان کا رجحان بہت زیادہ ہے جسے بیلنس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے پہلے ترقیاتی اور معاشی کاموں کے حل کے لیے پاکستان کا رجحان امریکہ اور یورپ کی طرف رہا ہے۔
اس دوران چین نے بھی ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے حکومت کو وقت دیا تاکہ وہ اپنی ترجیحات کا خاکہ تیار کر لے۔لیکن جب نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستانی وزیراعظم کو جھنڈی کروا کر فارغ کر دیا تو انہوں نے دوبارہ سے چین کو جپھی ڈالنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس سے تین ارب ڈالرز کا قرضہ حاصل کیا جا سکے۔