فون کالز بند ہونے کے بعد حکومت سیاسی یتیم بن گئی

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے امپائر کے نیوٹرل ہونے اور ٹیلیفون کالز کا سلسلہ بند ہو جانے کے بعد اُن سیاسی یتیموں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے جو آج تک چلے ہی اُنگلی پکڑ کر ہیں اور جن کا ووٹ ایک فون کال پر’’ہاں‘‘ اور ’’ناں‘‘ میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ اب وہ بیچارے سوچ میں پڑگئے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ البتہ اگر یہ ’’کالز‘‘ مستقل طور پر بند ہوگئیں تو ملکی سیاست کی سمت درست ہو جائے گی۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ امپائر کے نیوٹرل ہو جانے اور فون کالز بند ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے وزراء جو بھی دعویٰ کریں مگر وہ حکومت بچنے کے حوالے سے زیادہ پُراعتماد نہیں ہیں۔ اکتوبر 2021 میں آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی پر کھڑے ہونے والے تنازعے کے بعد سے سیاست میں جو گرمی آئی، اُس کو موسم کی سردی بھی متاثر نہ کر سکی۔

اب اگر امپائر نیوٹرل رہتے ہیں اور فیصلے سیاست دان کرتے ہیں تو یہ اُن کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہوگا۔ مظہر کہتے ہیں کہ اِس وقت تمام سیاسی جماعتیں اور گروپس متحرک ہیں۔ پنجاب میں پی پی پی کا نیا سیاسی جنم ہو رہا ہے اور بلاول بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کے بعد پنجاب میں اُن کی طرزِ سیاست کیا ہوتی ہے۔

عمران خان کو پارٹی کے اندر شدید اختلافات کا سامنا ہے اور ’’کالز‘‘ کے بند ہونے کے بعد اب منت ترلوں کا کام بھی اُنہیں ہی کرنا پڑ رہا ہے جو اُن کے مزاج کے خلاف ہے۔ دوسری جانب ان کی جماعت میں دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان سے ناراض لوگ کھل کر سامنے آتے جا رہے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں تو عمران خان کے ناراض ساتھی ہوں یا اتحادی ہوں، وہ فون کالز آنے کے بعد تیر کی طرح سیدھے ہو جایا کرتے تھے لیکن اب فون کالز بند ہو جانے سے اُنہیں سخت دشواری کا سامنا ہے کیونکہ وزیراعظم پر عدم اعتماد کی تحریک خفیہ رائے شماری سے تو ہوگی نہیں۔ ممکن ہے کہ خان صاحب کو اگر یقین ہوجائے کہ کھیل ہاتھ سے نکل رہا ہے تو وہ خود کوئی بڑا فیصلہ کر ڈالیں جو پورے سیاسی منظر نامے کو ہی بدل کر رکھ دے۔ اس لیے شاید اُن کے وفادار وزرا بار بار کہہ رہے ہیں کہ جسے ہمارا ساتھ چھوڑ کر جانا ہے ابھی چھوڑ کر چلا جائے۔

لیکن مظہر عباس کے مطابق اہم ترین سوال یہ ہے کہ کس کے پاس قومی اسمبلی میں کتنے نمبرز ہیں۔ اتحادیوں میں کل تک سب سے بہتر پوزیشن میں گجرات کے چوہدری تھے جنہوں نے اپنا ایک غیر اعلانیہ ’’پول‘‘ بنا رکھا تھا، جس میں ایم کیو ایم (پاکستان)، کچھ جہانگیر ترین گروپ کے لوگ اور پی ٹی آئی کے اندر کا ایک گروپ شامل تھا ۔

چوھدری اپوزیشن اور عمران خان دونوں کے ساتھ کچھ لوگ کچھ دو کے فارمولے پر کام کر رہے تھے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب چودھری گیم سے آؤٹ ہو چکے ہیں اور جہانگیر ترین اور علیم خان ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم بھی اب قاف لیگ سے علیحدہ سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے۔

کپتان کے لئے بری خبر یہ ہے کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی ان سے دوری اختیار کر رہا ہے اور ایم کیو ایم بھی۔ خان صاحب کے پُرانے اتحادی وزیراعلیٰ اختر مینگل واضح طور پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیں گے۔ ویسے بھی بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کا رُخ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ راتوں رات پارٹی بن سکتی ہے۔ اب کیونکہ ’’کالز‘‘ کا سلسلہ رُک گیا ہے تو جو بہتر آفر کرے گا وہ بہتر نتائج پائے گا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے تو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اب انہیں فون کالز آنا بند ہو چکی ہیں۔

بقول مظہر عباس، اس پورے عمل میں سب سے اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ’’عدم اعتماد‘‘ کے نتائج سب کو قبول کرنا پڑیں گے۔ اب کوئی ’دھند کا بہانہ یا بیرون ملک جانے کا عذر نہیں چلے گا۔ لہٰذا ایک بڑا سیاسی میلہ سجنے والا ہے جس میں 300 سے زائد اراکین شریک ہوں گے۔ کون کس کے ساتھ ہے، تحریک عدم اعتماد والے دن خان صاحب سمیت سب کو پتہ چل جائے گا۔

وزیراعظم نے پہلے ہی دھمکی دیدی ہے کہ تحریک کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کے ساتھ کیا سکوک کریں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہو گئی تو پھر عمران خان کا کیا بنے گا؟ مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اپنے لئے بڑھتی ہوئی سیاسی مشکلات دیکھ کر سُنا ہے کہ حکومتی لوگ یہ قرار داد لے کر آرہے ہیں کہ ’’ٹیلیفون کالز‘‘ کا سلسلہ بحال کیا جائے۔ یہ بیچارے رات گئے تک انتظار کرتے ہیں کہ اب کال آئی کہ جب کال آئی۔

یہ لوگ اکثر صبح ہوتے ہی پہلے اپنے موبائل فون دیکھتے ہیں کہ کسی ’’نامعلوم نمبر‘‘ سے کوئی مسڈ کال تو نہیں آئی۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں سے لے کر ایم این اے ہاسٹل تک ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں ’’یار کوئی کال آئی‘‘۔ مظہر کہتے ہیں ایسے میں میری تو دُعا ہے کہ فون کالز کا سلسلہ مستقل طور پر بند ہو جائے، اور امپائر نیوٹرل رہے تا کہ کم از کم سیاست دانوں کی صلاحیتوں کا تو پتا چلے کہ یہ اصولی ہیں یا وصولی۔

The government became a political orphan latest Urdu news

Back to top button