آئی ایم ایف کی دوسری قسط کیلئے کڑی شرائط سے حکومت پریشان

دوسری قسط کے اجراء سے قبل آئی ایم ایف کی 7 صفحات پر مشتمل سامنے آنے والی کڑی شرائط نے حکومت کی چیخیں نکلوا دیں۔ وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے ڈومور کے مطالبے پر ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ جس کے بعد حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کو رام کرنے کیلئے دیگر آپشنز پر غور شروع کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ حکومت ایک جانب معاشی اعشاریوں میں بہتری کے دعوے کر رہی ہے۔ وہیں معاشی پالیسی ساز ان دنوں ملک پر ایک سال کی واجب الادا رقم کو لوٹانے کے لیے مزید ڈھائی ارب ڈالر کے انتظام کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ پاکستان کو آئندہ سال ایک اور بڑی ادائیگی کرنی ہے جو بانڈ کی رقم ہے جس کے لیے حکومت کو ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کو چینی اور مشرق وسطیٰ کے بینکوں کے کمرشل قرضے بھی ادا کرنا ہوں گے۔ جس کیلئے حکومت ہاتھ پاوں مار رہی ہے۔

یاد رہے کہ سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی ایک قسط وصول کر چکا ہے۔رواں سال کے اوائل میں دوسری قسط وصول کرنے سے قبل حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کی سات صفحات پر مشتمل کڑی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔ تاہم معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو اس وقت عالمی مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

تاہم مبصرین کے مطابق آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے بیشتر پر عمل درآمد جاری ہے تاہم کئی شرائط تاحال پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ وفاقی حکومت کو بیشتر شرائط پر جنوری، فروری 2025 سے قبل عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔ جب کہ آئی ایم ایف کی دیگر شرائط جون 2025 تک پوری کرنا ہوں گی۔مبصرین کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران صحت اور تعلیم پر 685 ارب روپے خرچ کرنے کی شرط پوری نہیں کی جا سکی ہے۔ جب کہ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس ہدف سے 89 ارب روپے کم وصول کیے ہیں۔

وزارتِ خزانہ کے تحریری دستاویز کے مطابق 40 شرائط میں سے 22 اسٹرکچرل بینچ مارک پر جون 2025 کے اختتام تک عمل درآمد کی شرط طے کی گئی ہے۔بینچ مارک میں سے 18 وفاق سے متعلق جب کہ چار مرکزی بینک سے متعلق ہیں۔

رواں مالی سال کے جون تک حکومت کو ٹیکس نیٹ میں ساڑھے چار لاکھ نئے ٹیکس فائلرز کو شامل کرنا ہو گا۔

بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کیش ٹرانسفر کے لیے 599 ارب جاری کرنا ہوں گے۔ فارن ریزروز کو مارچ کے آخر تک 10 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی حد تک رکھنا ہو گا۔

کوئی ٹیکس استثناٰ یا کسی کو زیرو ریٹنگ کی سہولت نہیں دی جا سکے گی۔ بجٹ میں منظور اخراجات سے زائد کوئی بھی اخراجات پارلیمنٹ سے قبل از وقت منظوری کے سوا نہیں کیے جا سکیں گے۔

ہر صوبے کو اکتوبر 2024 کے آخر تک چھوٹے کسانوں کی زرعی آمدن پر انکم ٹیکس اور تجارتی زراعت کے لیے وفاقی کارپوریٹ ٹیکس کے لیے قانون سازی مکمل کرنا ہو گی اور زرعی انکم ٹیکس یکم جنوری 2025 سے وصول کیا جائے گا۔

جنوری 2025 تک بجلی فراہم کرنے والی دو کمپنیز کی نجکاری کا پلان تیار کرنا ہو گا اور گیس شعبے سے کیپٹو پاور کے استعمال کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ فروری میں گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ نوٹی فکیشن جاری کرنا ہو گا۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت فروری کے آخر تک اعلٰی سرکاری افسروں اور ان کے فیملی ممبرز کے اثاثے ڈکلیئر کرنا ہوں گے۔وفاقی حکومت شرائط کے تحت گورننس اور کرپشن سے متعلق رپورٹ جاری کرنے کی پابند ہو گی۔

جہاں ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد بارے پرعزم ہے وہیں دوسری جانب معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی بعض شرائط پر اس وقت پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں ریفارمز اور نجکاری کا عمل آسان نہیں ہے، اس میں بہت مسائل موجود ہیں۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 40 فی صد تک اضافہ کرایا گیا۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف کی محصولات میں مسائل رہیں گے۔ تاہم شرح سود میں کمی کے بعد بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی رقم کم ہو گی۔اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں زرعی ٹیکس لگانے کے حوالے سے جو کام پنجاب میں ہو رہا ہے، اُمید ہے کہ سندھ بھی اس کی پیروی کرے گا۔

معاشی امور کے ماہر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس مالی سال میں بیرونی ضروریات کے لیے 18 سے 20 ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی جبکہ پاکستان کو دوست ممالک کی جانب سے رکھوائے ڈپازٹس بھی واپس کرنا ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک سال کے لیے نہیں آئندہ تین برسوں کے لیے 12 ارب ڈالرز کے ڈپازٹ کی ری پروفائلنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو موجودہ حالات میں مشکل دکھائی دیتا ہے

عمران کی فوج کے ساتھ جنگ کا کونسا بھیانک نتیجہ نکلنے والا ہے ؟

ان کے بقول، پاکستان کے دوست ممالک نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 12 ارب ڈالرز ڈپازٹ کروا رکھے ہیں اور اگلے دو سے تین سال میں انہیں واپس کرنا ممکن نہیں ہو گا اس لیے انہیں مؤخر یونی ری پروفائلنگ کرنا پڑے گی۔خاقان نجیب کے مطابق سعودی عرب کے تقریباً چھ ارب ڈالر کے ڈپازٹ پاکستان کے پاس موجود ہیں جب کہ چار ارب ڈالر چین اور کچھ رقم قطر اور متحدہ عرب امارات کی بھی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی ممکن بنانے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کو یہ پلان دینا ہوگا کہ وہ مطلوبہ رقم سے زیادہ قرضے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا تاکہ رقوم کے بہاؤ کا مجموعی اثر مثبت ہی رہے اور پاکستان ڈیفالٹ سے بچا رہے۔

Back to top button