مدارس کی رجسٹریشن میں حکومت خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے : مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کےسربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں حکومت سب سے بڑی خود رکاوٹ ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے اظہار خیال کرتےہوئے مولانا فضل الرحمٰن نےکہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی تھی، کوشش یہ ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں،سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں، دونوں فریق ایک دوسرےکو سمجھاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ 2004 میں مدارس کےحوالے سوالات اٹھائےگئے،پہلا سوال یہ تھاکہ دینی مدارس کا مالیانی نظام کیاہے؟ دوسرا سوال تھاکہ مدارس کا نظام تعلیم کیاہے؟ تیسرا سوال تھاکہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتاہے؟
انہوں نےکہا کہ ان سوالات پر مذاکرات ہونے کےبعد جب حکومت مطمئن ہوگئی تو اس وقت ایک قانون سازی ہوئی اور اس میں کہا گیاکہ دینی مدارس محتاط رہیں گےکہ ان میں کسی طرح بھی فرقہ وارانہ تعلیم نہ ہو،شدت پر آمادہ کرنےوالا کوئی مواد پیش نہ کیا جائے،البتہ تقابل ادیان کےحوالے سے استاد کی علمی بحث کو استثنیٰ دیاگیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ بعد میں کچھ مشکلات آتی رہیں،ہماری خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں،وہاں ڈرانے،دھمکانے اور پریشان کرنےکا ایک سلسلہ چل رہا تھا،جس پر سنجیدہ شکایت اٹھی اور 2010 میں ایک مرتبہ پھر معاہدہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کےحوالے سے کوئی بھی شکایت براہ راست مدرسےمیں جاکر نہیں کی جائےگی بلکہ اس تنظیم سےکی جائے گی جس کا اس مدرسے سے الحاق ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نےکہا کہ ہمارے نزدیک تو معاملات طےتھے لیکن اس کے بعد 18 ویں ترمیم پاس ہوئی،تو خود حکومت نے سوال اٹھایاکہ مدارس 1860 کے سوسائٹیز ایکٹ کےتحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں،اب چونکہ وہ صوبائی مسئلہ بن گیا ہے لہٰذا آپ وفاقی وزارت تعلیم کےساتھ خود کو وابستہ کرلیں۔
انہوں نےکہا کہ پھر وزرات تعلیم کی بات آئی اور بات چیت ہوتی رہی لیکن کوئی قانون نہیں بنا صرف ایک معاہدہ ہوا تھاجو تین باتوں پر مشتمل تھا،پہلی یہ بات تھی کہ رجسٹرڈ مدارس کی رجسٹریشن برقرار رہےگی اور نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرےگی۔
دوسری بات مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیےجائیں گے،تیسری بات غیر ملکی طلبہ کو مدارس میں تعلیم کےلیے 9 سال کا ویزا دیا جائےگا۔
انہوں نے کہاکہ معاہدے کےمطابق وزیر قانون نے مسودہ تیار کیا اور ایوان میں لایا گیا،اتفاق کے باوجود قانون سازی کےوقت بل میں تبدیلیاں کی گئیں،21 اکتوبر کو بل منظور ہوا،28 کو صدر نے اعتراض کیا،اسپیکر اور قومی اسمبلی نے اصلاح کرکے بل واپس صدر کو بھیج دیا تھا۔
شہباز شریف کا عمران خان کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کی درخواست ناقابل سماعت قرار
مولانا فضل الرحمٰن کاکہنا تھا کہ صدر نے بل پر دوبارہ کوئی اعتراض نہیں کیا، دوسرے اعتراض کا حق بھی نہیں،تمام تنظیمات مدارس کا متفقہ مؤقف ہےکہ ایکٹ بن چکا،اسپیکر ایاز صادق نے انٹرویو میں کہاکہ ان کےمطابق یہ ایکٹ بن چکا،ایکٹ بن چکا تو گزٹ نوٹی فکیشن کیوں نہیں ہورہا،اس بل کو دوبارہ لاکر ترمیم کرنا غلط نظیر ہوگی،صدر کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے ٹھیک نہیں، اب تاویلیں نہیں چلیں گی۔