اسلام آباد ہائیکورٹ کا پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت دینےسےانکار

اسلام آباد ہائیکورٹ نےاسلام آباد میں کسی بھی طرح احتجاج یا دھرنے کی اجازت دینے سےانکارکردیاہےاور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو وزیر داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں تشکیل پان والی کمیٹی کےساتھ مذاکرات کی ہدایت کی ہے۔

اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق نےاسد عزیز کی جانب سےحکومت پاکستان کےنام دائردرخواست کاتحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

تحریری فیصلےمیں جسٹس عامر فاروق نےکہا ہے کہ عدالت کےپہلے کےحکم کی روشنی میں وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ، حکومت پاکستان کےساتھ ساتھ چیف کمشنر، آئی سی ٹی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس،آئی سی ٹی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ایک سیاسی جماعت کےارکان احتجاج اور دھرنے کےلیےاسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کا رخ کررہےہیں۔

 مدعا علیہان نمبر1 سے 4 امن وامان کی صورتحال کومعمول پر لانے اور کسی قسم کی رکاوٹ کو یقینی بنانے کےلیےمشترکہ کوششیں کررہے ہیں تاکہ عام شہریوں کےمعموملات زندگی میں کوئی خلل نہ آئے۔

ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جب بھی کوئی سیاسی سرگرمی،احتجاج یا دھرنا ہوتاہے تواسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں زندگی مکمل طور پر رک جاتی ہے۔عرضی میں کہا گیاتھا کہ درخواستگزار پیشے کے لحاظ سےایک تاجر ہیں اوراسےآئین کے مطابق ذریعہ معاش اورنقل و حرکت کی آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔

تحریری فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیارکیا گیا ہےکہ مدعا علیہان نمبر1 سے4 تک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب بھی کوئی سیاسی سرگرمی یااحتجاج ہو تودرخواستگزار یااسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

 ہائیکورٹ نےفیصلے میں لکھا گیا ہے کہ وزیر داخلہ، ایڈوکیٹ جنرل آئی سی ٹی اسلام آباد اور درخواست گزار کے وکیل کو سننے کے بعد یہ واضح ہے کہ مدعا علیہ نمبر 5 (پاکستان تحریک انصاف) نے24 دسمبر 2024 کو وفاقی دارلحکومت میں سیاسی ریلی اوردھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ اسی طرح کےحالات میں اس عدالت نے رٹ پٹیشن نمبر 2974/2024 میں 05.10.2024 کے حکم کے ذریعے کہا کہ پاکستان کے شہریوں کو جلسے، جلوسوں اورنقل و حرکت کی آزادی کے بنیادی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں، تاہم وہ متناسب اورمعقول پابندیوں کے تابع ہیں۔

فیصلے میں لکھا گیا ہےکہ آئین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں صرف جائز مقاصد کے لیے ہی جائز ہیں جو وسیع ترعوام کے بہترین مفاد میں ہونی چاہییں۔ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں امن وامان کی برقراری وزارت داخلہ اوراسلام آباد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اورفرائض کی انجام دہی کے دوران متناسبیت اورعوامی مقصد اور مقصد کےجوازکےاصول، مذکورہ حکام کو سخت یا غیرمتناسب پابندیوں کی روک تھام کا پابند بناتے ہیں جو بصورت دیگر حقوق کی غیر قانونی خلاف ورزی کے مترادف ہوں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ملک کے دارالحکومت کی حساسیت کو مدنظر رکھتےہوئے مقننہ نےحال ہی میں پرامن احتجاج اور پبلک آرڈر ایکٹ 2024 نافذ کیاہے،جس کے تحت وفاقی دارلحکومت میں اسمبلی کےلیےضلع مجسٹریٹ کو تحریری طور پر درخواست دی جاتی ہے۔اس میں حوالہ شدہ درخواست پرکارروائی کی جانی ہے اور اجتماع کی اجازت کے بارے میں مناسب حکم دیاجانا ہے لہٰذا اس عدالت کو بتایا گیا کہ آج تک ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی ہے۔

فیصلےمیں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عدالت کو یہ بھی بتایا گیاہے کہ بیلاروس کے صدر اپنے60 سےزیادہ افراد کے وفد کےساتھ 24.11.2024 کوپہنچ رہے ہیں اور ان کا تحفظ اور نقل و حرکت کی آزادی انتہائی اہم ہے، اس کےبراہ راست کسی دوسرے ملک کےساتھ تعلقات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔لہٰذا اس میں وسیع ترعوامی مفاد شامل ہے۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا ہےکہ اگرچہ مدعا علیہ نمبر 5(پی ٹی آئی) کی قیادت کے ساتھ کچھ بات چیت ہوئی ہے لیکن احتجاج کیلئے اس طرح کی کوئی رسمی بات چیت نہیں کی گئی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نقل و حرکت اور اجتماع کی آزادی اور مدعا علیہ نمبر 5 (پی ٹی آئی ) کے کارکنوں کے بنیادی حقوق کو مدنظررکھتے ہوئے،انہیں وہ حق حاصل ہے جو قانون کے تحت پرامن اجتماع اورپبلک آرڈرایکٹ،2024 کے تابع ہے، یہ مناسب ہوگا کہ مدعا علیہ نمبر1 کمیٹی تشکیل دے جس کی سربراہی وزیر داخلہ یا کسی دوسرے شخص کی سربراہی میں ہو جو مدعا علیہ نمبر5 (پی ٹی آئی ) کی قیادت کے ساتھ بات چیت کرے۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کویقین ہے کہ جب بھی اس طرح کی رسمی مصروفیت ہوں گی، کچھ پیش رفت ہوگی۔ اگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے تو امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانا عام شہریوں کی زندگی میں کم سے کم خلل ڈالے بغیر نمبر 1 سے 4 کی ذمہ داری ہے اور ایکٹ2024 کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔

درخواست میں وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی، سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا، چیف کمشنراسلام آباد ایم علی رندھاوا، آئی جی اسلام آباد سید محمد علی رضوی، لا آفیسر پولیس طاہرکاظم اور سی پی اواسلام آباد کو بھی درخواست میں فریق بنایا گیا تھا۔

Back to top button