انڈین نیوی پاکستانی بحری بیڑے کی طاقت میں اضافے سے پریشان
پاکستانی بحری افواج کی جانب سے چین کی مدد سے اپنے بحری بیڑے کی تعداد 50 تک بڑھانے اور پانی میں دور تک مار کرنے والے ڈرون بنانے کی کوششوں نے بھارتی بری افواج کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ بھارتی پریشانی بڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا ذیادہ تر تیل خلیج فارس اور بحر احمر کے راستے آتا ہے جس کی یورپ سے تجارت ہوتی ہے جبکہ کراچی، گوادر اور مکران کے سمندری خطے میں پاکستان کی بحریہ سرگرم ہے۔
دوسری جانب چین افریقی ملک جبوتی میں اس امریکی اڈے کے قریب اپنا پہلا بحری فوجی اڈہ قائم کر چکا ہے جسے امریکہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنی بڑی اور اہم فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یوں اس خطے میں پاکستان اور چین کی بحری طاقت بہت ذیادی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان اور انڈیا جنوبی ایشیا میں وہ دو نیکلئیر ہمسایہ ممالک ہیں جو کہ ماضی میں تین باقاعدہ بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد ایسے مواقع بھی آئے جب یہ دونوں چوتھی باقاعدہ جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے۔ باہمی تعلقات میں 77 برسوں سے چلی آ رہی یہ کشیدگی ہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کی عسکری قیادتیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے کوشاں بھی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کی عسکری قوت پر نظر بھی رکھتی ہیں۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسا ہی ایک لمحہ حال ہی میں تب آیا جب انڈین بحریہ کے سربراہ ایڈمرل دینیش ترپاٹھی نے پاکستانی بحریہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور چین سے اس کے اشتراک پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈیا پاکستانی بحریہ کی ’حیرت انگیز ترقی‘ سے پوری طرح آگاہ ہے، جو آئندہ برسوں میں اپنے موجودہ بحری بیڑے کی صلاحیت 50 بحری جہازوں تک بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایڈمرل ترپاٹھی کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستان کی بڑھتی ہوئی بحری صلاحیتوں کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں، اسی لیے ہم اپنے مفادات پر پڑنے والے کسی ممکنہ منفی اثر کو زائل کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی اور آپریشنل منصوبے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ ہم کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ چین پاکستانی بحریہ کی بحری جہاز اور آبدوزیں بنانے میں مدد کر رہا ہے۔
یاد رہے حالیہ برسوں میں چین کی بحری طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ چین کے بحری بیٹرے میں اب امریکہ سے زیادہ جہاز موجود ہیں اور اس نے بحر ہند میں کئی ریسرچ اور جاسوسی کرنے والے جہاز مستقل طور پر تعینات کر رکھےہیں۔ انڈین بحریہ کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب انڈیا اور پاکستان کئی برس سے اپنی بحریہ کو وسعت دینے میں مصروف ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں دنیا کے بدلتے ہوئے سکیورٹی پس منظر میں جنگی حکمت عملی میں بحریہ مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
انڈین بحریہ کے پاس اِس وقت چھوٹے بڑے بحری جہازوں کی تعداد 150 ہے جبکہ ان کے پاس دو طیارہ بردار جہاز بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ انڈیا کے پاس 16 کنوینشل یعنی روایتی جبکہ دو نیوکلیئر پاورڈ آبدوزیں بھی موجود ہیں۔ انڈین بحریہ کے مطابق اُن کے پاس 275 طیارے، ہیلی کاپٹر اور ڈرونز بھی موجود ہیں، جبکہ 50 بحری جہاز اور آبدوزیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ انڈیا نے حال ہی میں ایک اپنا طیارہ بردار بحری جہاز ’آئی این ایس وراٹ‘ بنایا ہے، جبکہ حکومت نے حال ہی میں ایک اور طیارہ بردار بحری جہاز کی منظوری دی ہے۔ انڈیا نے حالیہ برسوں میں روس کی مدد سے دو جوہری آبدوزیں بھی بنائی ہیں جبکہ مزید دو آبدوزیں آئندہ سالوں میں فعال ہوں گی۔
انڈین بحریہ نے گذشتہ چار دہائیوں میں بہت خاموشی سے خود کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ یہ اس خطے میں پہلی بحریہ تھی جس نے اپنے بیڑے میں طیارہ بردار بحری جہاز شامل کیا تھا۔ 1964 میں انڈین بحریہ نے برطانیہ سے ایچ ایم ہرکولیس نامی ایک پرانا طیارہ بردار جہاز خریدا تھا۔ تاہم انڈیا کی بیشتر آبدوزیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اس کی 16 میں سے نصف کنونشنل آبدوزیں جنگ میں استعمال کے لائق نہیں ہیں، تاہم اب بھارتی بحریہ نیوکلیر آبدوزیں حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ اس وقت انڈیا کی بحری صلاحیت پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اس کی بحری سرحدوں اور خطوں کے تحفظ کی ذمےداری بھی پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بحریہ کے پاس مختلف اقسام کے 45 بحری جہاز موجود ہیں، جن میں چھ آئل ٹینکرز بھی شامل ہیں۔پاکستانی بحریہ کے پاس پانچ آبدوزیں موجود ہیں، جبکہ آٹھ آبدوزیں اور متعدد جنگی جہاز ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ پاکستانی بحریہ کے پاس فکسڈ ونگ جہازوں کے تین، روٹری ونگ جہازوں کے تین اور ڈرونز کی بھی ایک سکواڈرن موجود ہے۔ خیال رہے ایک سکواڈرن میں متعدد طیارے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 سے 1300 کلومیٹر لمبی ہے۔
تاہم دونوں ممالک کے دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دو ممالک کی نیول فورسز کا موازنہ اُن کے پاس موجود جنگی ساز و سامان کی بنیاد پر کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق ہر ملک کی بحریہ کا مقصد الگ ہوتا ہے۔ ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ فیصل شاہ کے مطابق ’پاکستانی نیوی کا مِشن دراصل دفاعی نوعیت کا ہے جس کا مقصد اپنی سمندری سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ چونکہ ہماری 90 فیصد سے زیادہ تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے تو ہمیں امن اور جنگ دونوں زمانوں میں اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اس کے لیے جو چیزیں چاہییں ہم ان کا بندوبست کرتے ہیں۔‘
پاکستانی دفاعی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں پاکستانی بحریہ نے انتہائی تیزی سے ترقی کی ہے اور پاکستانی قیادت کو انڈیا کی اس ترقی میں دلچسپی کا بخوبی اندازہ ہے۔ پاکستان کی بحریہ ہر دو برس بعد مشقیں کرتی ہے تاکہ کسی بھی جنگ کی صورت میں پیچیدہ آپریشنز کی تیاری ہو سکے۔ رواں برس فروری کے مہینے میں بھی ایسی ہی مشقیں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوئی تھی جنھیں ’سی سپارک 2024‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ان مشقوں کے دوران پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سمندر میں آپریشنز کے دوران پاکستانی بحریہ کے جنگی جہازوں اور ہوائی جہازوں نے انڈین بحریہ کے جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کی موجودگی کا بھی سراغ لگایا اور وہ پاکستان نیوی کی جنگی مشقوں کا خفیہ طریقے سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
گذشتہ چند برسوں میں پاکستانی بحریہ نے متعدد نئے جہاز اپنے بیڑے میں شامل کیے ہیں اور کئی نئی جہاز اور آبدوزیں ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ گذشتہ برس پاکستانی بحریہ نے ترکی میں بنائے گئے جنگی جہاز پی این ایس بابر اور رومانیہ میں بنائے گئے جنگی جہاز ’پی این ایس حنین‘ کو اپنے بیڑے میں شامل کیا تھا۔ اس طرح پاکستان اور چین کے درمیان چار بحری جنگی جہاز بنانے کا معاہدہ 2018 میں ہوا تھا۔ اس سے قبل بھی چین ایسے ہی دو جہاز پاکستان کے حوالے کر چکا ہے۔ پاکستان نے چین کو آٹھ ہنگور کلاس آبدوزیں بنانے کا آرڈر بھی دے رکھا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ تمام آبدوزیں 2028 تک پاکستانی بحریہ کے بیڑے میں شامل کر لی جائیں گی۔
وائس ایڈمرل ریٹائرڈ احمد تسنیم پاکستانی بحریہ کے وہ سابق کمانڈر ہیں جو سنہ 1971 میں پاکستانی آبدوز پی این ایس ہنگور کے کمانڈر تھے اور ان ہی کی قیادت میں پاکستان نے انڈین بحری جہاز آئی این ایس کھکری کو تباہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بحریہ نے گذشتہ 15 برسوں میں برق رفتاری سے ترقی کی ہے اور اس سب کی وجہ وہ بحریہ کی قیادت کو سمجھتے ہیں انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں فیصلہ سازوں کو سمندر کی اہمیت دیر سے سمجھ آئی اور ’جب حکومتوں نے اسے نظر انداز کرنا چھوڑا‘ تو پاکستانی بحریہ کی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔
چیمپیئنز ٹرافی: محسن نقوی نے بھارتی کرکٹ بورڈ کو کیسے شکست دی؟
احمد تسلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی حال ہی میں ترکی اور رومانیہ میں بنائے گئے جہاز بھی پاکستانی بحریہ میں شامل کیے گئے ہیں اور یوں مستقبل قریب میں پاکستانی بحریہ کے پاس 50 تک بحری جنگی جہاز آ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور چین مل کر ابھی چار آبدوزیں بنا رہے ہیں ’جن میں سے چار چین جبکہ چار کراچی کے شپ یارڈ میں بن رہی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی بحریہ دیگر بحری جنگی جہاز بنانے پر بھی کام کر رہی ہے جس کے کچھ پُرزے پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں بن رہے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین نے پاکستان کو ایریا ڈینائل نامی دو میزائل دیے ہیں جن کی رینج 200 سے 400 کلومیٹر تک ہے اور یہ طیارہ بردار بحری جہازوں کو بھی باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ چین کو پاکستان کی بحری صلاحیت بڑھانے میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ چین کی بحریہ بحر ہند میں زیادہ کام کرتی ہے اور اگر پاکستان بحیرِہ عرب کا محاذ سنبھال لیتا ہے تو چین کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس وقت پاکستان کے پاس جو کنوینشنل آبدوزیں ہیں اس صلاحیت کی آبدوزیں انڈیا کے پاس بھی نہیں ہیں۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی بحریہ چین کی مدد سے زیر سمندر دور تک مار کرنے والے والے ڈرون بھی بنا رہی ہے جو وہ اپنی بحریہ میں شامل کر سکے گی۔