پارلیمنٹ میں لاپتہ افراد کامسئلہ حل کیا جائے،آئینی بینچ
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کےدوران ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا عام یامشترکہ اجلاس بلا کرمسئلے کو حل کریں۔
آئینی بینچ نےلاپتا افراد کیس میں اٹارنی جنرل،وزارت داخلہ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سےرپورٹس طلب کر لیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری نظر میں لاپتا افراد کا کیس انتہائی اہم ہے، لاپتا افراد کےکیسز ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں چل رہےہیں،لوگوں کی زندگیاں ہیں ہزاروں لوگ لاپتا ہے۔ یہاں اعتزاز احسن لطیف کھوسہ جیسے سیاستدان کھڑے ہیں،اس مسئلہ کا حل پارلیمنٹ نےنکالنا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل جاویداقبال نےدلائل میں کہ کابینہ میں لاپتا افراد کا معاملہ گزشتہ روز ڈسکس ہوا ہے، کابینہ نےسب ذیلی کمیٹی بنادی ہے جو اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔حکومت لاپتا افرادکا معاملہ حتمی طور پرحل کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ بیان بازی سےحل نہیں ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ لاپتا افراد کمیشن نےاب تک کتنی ریکوریاں کی ہیں۔
جسٹس حسن اظہررضوی نےکہا کہ کیا کوئی لاپتا افراد کمیشن کے پاس ڈیٹا ہے کس نے افراد کو لاپتا کیا، جو لاپتا لوگ واپس آئے کیا انہوں نے بتایا کون اٹھا کر لے کر گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ لاپتا افراد واپس آنےپرکچھ نہیں بتاتے، لاپتا افراد واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقہ جات میں آرام کےلیے گئے تھے۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نےکہا کہ ملک ڈیپ اسٹیٹ بن گیا ہےجس پر جسٹس جمال مندوخیل نےایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کوبات کرنے سےروک دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کھوسہ صاحب عدالت میں سیاسی بات نہ کریں، پارلیمنٹ کاعام یا مشترکہ اجلاس بلا کرمسئلے کوحل کریں۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ ن کہا کہ کیا لاپتا افراد کےمعاملے کو26 ترمیم کی طرح حل کیا جائے۔جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنےوقت پر دیکھی جائے گی۔لطیف کھوسہ نےکہا کہ لاپتا افراد سے بلوچستان سب سےزیادہ متاثرہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قوم اورعدالت آپ پارلیمنٹرین کی طرف دیکھ رہی ہے۔وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کےپاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ کےتحریک انصاف کے لوگ بھی اٹھائے گئے۔لطیف کھوسہ نےکہا کہ جی بالکل تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔جسٹس مسرت ہلالی نےسوال کیا کہ کیا انہوں نےآکر بتایا کہ انھیں کون اٹھا کر لیکر گیا؟لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جواٹھائے گئےان کےبچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔
وکیل فیصل صدیقی نےدلائل میں کہا کہ لوگوں کے دس، بیس سال سے پیارے لاپتا ہیں، عدالت نے گزشتہ سماعت لاپتا کےحوالے سے حکم دیا تھا اورآج وہ گزشتہ سماعت کا آرڈر بینچ کو نہیں مل رہا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نےکہا کہ لاپتا افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی مسنگ ہوگیا۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کےایک کلاسک مقدمہ میں 25 وکیل پیش ہوئے،بلوچستان ہائیکورٹ کےحکم پر لاپتا افراد گھرآگئے۔ عدالت نےواپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا لیکن بازیابی کےبعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کےلیے پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس نعیم افغان نےریمارکس دیے کہ بازیاب افرادکےبیان ریکارڈ کرنے کا ایک مقصد تھا اورمقصد یہ تھا اگر آرمی سےکوئی ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے، اگر دیگر ادارےملوث ہیں تو ان کےذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے۔لاپتا افراد کے کسی مقدمے کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرات پیدا کریں،لاپتا افراد سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو۔
آئینی بینچ کے جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ لاپتا افراد کے کچھ کیسز میں افراد ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں،لاپتا افراد کےنام پرآزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل یقین دہانی کے بعد 350 افراد لاپتا ہوگئے، اسٹیٹ آفیشل گزشتہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کوئی شہری لاپتا نہیں ہوگا۔