کراچی میں چینی انجینئرز کو مارنے والا اعلیٰ تعلیم یافتہ نکلا
کراچی ائیرپورٹ پر چینی قافلے پر خودکش حملہ کرنے والا بی ایل اے سے وابستہ 28 سالہ دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ نکلا۔ مبینہ خودکش حملہ آور شاہ فہد بادینی کے لسبیلہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور بی بی اے ڈگری ہولڈر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
کراچی ایئرپورٹ کے قریب سگنل پر خودکش دھماکہ کرنے والے شخص سے متعلق اہم تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ تحقیقاتی حکام کی رپورٹ نے بتایا ہے کہ مبینہ خودکش حملہ آور شاہ فہد بادینی نے گذشتہ دسمبر سے اس سال اکتوبر تک چار مرتبہ کراچی کا سفر کیا تھا۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کراچی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ شہر کے دوروں کے دوران حملہ آور نے صدر، پاسپورٹ آفس اور دیگر مقامات پر قیام کیا۔ تحقیقات کرنے والے حکام کے مطابق واقعہ خودکش تھا مبینہ حملہ آور نے ہدف کی تفصیلی ریکی بھی کر رکھی تھی۔ فرانزک جانچ کے مطابق: ‘دھماکے میں سی فور بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا، جس میں فاسفورس کی مقدار زیادہ رکھی گئی تھی۔’فاسفورس کی اضافی مقدار کی وجہ سے گاڑیوں اور آس پاس کے علاقوں میں آگ پھیل جاتی ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ دھماکے کے بعد اردگرد گاڑیوں اور دیگر املاک میں آگ لگ گئی۔
خیال رہے کہ کراچی جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے سگنل پر اتوار اور پیر کی درمیانی شب دھماکہ ہوا تھا جس کی آواز کی گونج 20 کلومیٹر تک سنی گئی تھی۔ جس پراسرار نوعیت کا یہ دھماکہ تھا اس سے اطراف کی آبادی میں سنسنی پھیل گئی تھی۔
تین دن گزرنے کے باوجود سکیورٹی ادارے تاحال اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ حملے کی منصوبہ بندی کہاں سے کی گئی اور شاہ فہد کے دیگر ساتھی کون تھے۔واقعے کو 50 گھنٹوں سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود جائے وقوع یا کرائم سین بدستور بند رکھا گیا ہے اور تاحال تاہم کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکا۔ حکام کے مطابق تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور مزید اہم پیش رفت کی توقع ہے۔
تحقیقات کے مطابق: ‘حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی ڈبل کیبن ویگو تھی، جو شاہ فہد کے نام پر ہی رجسٹرڈ تھی۔ گاڑی کا نمبر KW-0375 تھا اور اسے ہی حملے میں استعمال کیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ گاڑی 2012 ماڈل تھی لیکن اس کی رجسٹریشن اگست 2017 میں کروائی گئی اور تمام ٹیکس بھی 31 دسمبر 2024 تک ادا ہوچکے تھے۔
پولیس کے مطابق حملہ آور گاڑی لے کر ماڈل کالونی کی طرف سے ایئرپورٹ روڈ پر آیا اور جیسے ہی غیرملکی شہریوں کا قافلہ آگے بڑھا تو ایئرپورٹ سے شارع فیصل جانے والے روڈ پر حملہ آور نے دائیں جانب سے اسے ہٹ کیا۔ دھماکاخیز مواد گاڑی کے اگلے حصے میں نصب تھا جس سے حملہ آور نے چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا۔ غیرملکیوں کے حملے کا نشانہ بننے کی وجہ سے حکام اسے اب ہائی پروفائل واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات میں انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے بھی مصروف ہیں۔
آرمی چیف، صدر اور وزیراعظم کا عمرانی فتنہ ختم کرنے کا حتمی فیصلہ
ذرائع کے مطابق تحقیقاتی اداروں کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے میں بلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔ خود کش حملے کی تفتیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی جس شخص نے خریدی تھی اسے فنڈنگ را نے کی تھی جس کے ثبوت مل گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی بلوچستان لبریشن آرمی کو پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کےلیے فنڈنگ کر رہی ہے اور کراچی خود کش حملہ بھی را کی فنڈنگ سے کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی اور بی ایل اے دونوں پاکستان اور چین کی مثالی دوستی کو تباہ کرنے کے در پے ہیں۔
خیال رہے کہ کراچی میں چینی شہریوں پر کیے جانے والے حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے 7 اکتوبر کو میڈیا کو جاری ایک بیان میں اسے خودکش حملہ ہی قرار دیا۔ اعلامیے کے مطابق: ‘ کراچی ایئر پورٹ پر خودکش حملہ بی ایل اے مجید برگیڈ کے فدائی شاہ فہد بادینی عرف آفتاب نے سرانجام دیا۔‘تنظیم نے اس نوجوان کی تفصیل مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’شاہ فہد بادینی عرف آفتاب ولد میر فضل خان بادینی کا تعلق نوشکی کے علاقے کلی بادینی سے تھا۔‘ اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’شاہ فہد 2019 میں بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوا اور اس کی عمر 28 سال تھی۔ شاہ فہد لسبیلہ یونیورسٹی میں بی بی اے کی تعلیم مکمل کرچکے تھا۔‘بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور ہونہار و باصلاحیت طالب علم تھا جس نے 2021 میں بی ایل اے مجید برگیڈ کو بطور رضا کار اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ ’شاہ فہد کو تین سال کے انتظار اور تربیت کے بعد ایک سال قبل یہ مشن سونپا گیا۔ دوسری جانب ‘یونیورسٹی سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق : ‘حملہ آور نے 2017 میں بی بی اے ایگریکلچر میں داخلہ لیا تھا اور چار سالہ ڈگری مکمل کی۔‘ تاہم اس حوالے سے یونیورسٹی طلبا و انتظامیہ مزید بات کرنے سے خوفزدہ ہیں۔