قومی اسمبلی نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری دیدی

اپوزیشن اراکین کی تجویز کردہ چند تبدیلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کو منظور کرلیا۔

پی ٹی آئی کے ایم این اے فیض اللہ کی سربراہی میں کمیٹی کو وزیر خزانہ شوکت ترین نے یقین دلایا کہ اس بل میں مرکزی بینک کی مکمل خود مختاری کا تصور نہیں ہے۔

حکومت بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر کرے گی جو مرکزی بینک اور اس کی اعلیٰ انتظامیہ کو کنٹرول کرے گی، اسٹیٹ بینک کے گورنر کو سینئر مینجمنٹ کے تقرر یا برطرف کرنے کا مکمل اختیار نہیں ہوگا۔
حزب اختلاف کے اصرار پر کمیٹی نے بل میں تین بڑی تبدیلیوں کی سفارش کی، اسٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے پر دوہری شہریت کے حامل افراد کے تقرر پر پابندی، گورنر اور بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنانا ہے۔

بل کی منظوری وزارت خزانہ کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے بعد ہوئی کہ اس نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے چھٹے جائزے کی منظوری کے لیے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کو جنوری کے آخر تک دوبارہ شیڈول کرنے کی باضابطہ درخواست کر دی۔

مری میں کیا ہوا؟

انہوں نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ حکومت کا مرکزی بینک کے چلانے میں کوئی کردار نہیں ہوگا یا وہ معیشت پر کنٹرول کھو دے گی، پارلیمنٹ سے بل کی منظوری کے بعد بھی تمام بڑے فیصلے وزیر خزانہ اور گورنر کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایس بی پی بورڈ کے ممبران کا انتخاب اور تقرر کرے گی جو بینک کو کنٹرول کریں گے۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا تاہم گزشتہ حکومت کا قرض تقریباً 70 کھرب روپے تھا، اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کے پاس بیرون ملک کی شہریت یا مستقل رہائش کی حیثیت نہیں ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مجوزہ قانون کے تحت اسٹیٹ بینک کے بورڈ کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ مرکزی بینک کتنا منافع برقرار رکھ سکتا ہے اور باقی وفاقی حکومت کو کتنا دے سکتا ہے۔

Back to top button