شریف عمرانی انقلاب کی رات

تحریر:وسعت اللہ ، بشکریہ: بی بی سی اردو

مثالی صورت تو یہ ہوتی کہ ووٹوں سے منتخب وزیرِ اعظم کو اپنی مرضی کا صدر، چیف آف سٹاف، تمام عالیہ و عظمیٰ جج صاحبان، سپیکر، چیرمین سینیٹ، قائدِ حزبِ اختلاف، گورنر، وزرائے اعلی، تمام انٹیلی جینس ڈائریکٹرز بشمولِ چیرمین نیب اور الیکشن کمیشن ارکان نامزد کرنے کا اختیار ہوتا۔ اور ان سب کے لیے پارٹی کارڈ ہولڈر ہونا لازمی شرط ہوتی۔اور وزیرِ اعظم اپنی صوابدید پر انھیں مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ بنا وجہ بتائے برطرف بھی کر سکتا۔ اور جب جب بھی عام یا ضمنی انتخابات ہوتے تو صرف ان ہی امیدواروں کو حصہ لینے کی اجازت ہوتی جن کا نام سیاسی پس منظر کی تفصیلی چھان بین کے بعد الیکشن کمیشن کی پیشگی منظور کردہ فہرست میں آ جاتا۔

افسوس یہ مثالی دنیا نہیں اور جس مثالیے کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا اس کی راہ میں کئی راہزن، اچکے، غدار، سر سے پاؤں تک بدعنوان، اشتہاریے افراد، گروہ، آڑھتی اور ادارے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مایوس ہو کر بیٹھ جایا جائے۔ جب تک یہ مقصدِ اعلٰی حاصل نہیں ہو جاتا نہ خود کو اور نہ ہی کسی اور کو بیٹھنے دینا ہے۔ ایک دن یہ نعرہ ضرور کامیاب ہو گا کہ میں نہیں تو کچھ نہیں اور اب نہیں تو کبھی نہیں۔یہ تو تھا میرا خواب۔ دل تو نہیں چاہ رہا کچھ مزید لکھنے کا مگر آپ کے من و رنجن کے لیے کچھ آج کی بات بھی کر لیتے ہیں۔

آج رات تک پنجاب میں دودھ کا دودھ ہو جائے گا۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ یہ ضمنی انتخاب حق اور باطل کا معرکہ ہے، امر بالمعروف والا جہاد ہے، ملکی بقا کی آخری لڑائی ہے یا پھر عوام اور روائتی حکمران طبقات کے مابین آخری جنگِ عظیم کا آغاز ہے۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ ان انتخابات میں مدِ مقابل دو بڑی جماعتوں کے ٹکٹ پر جو جو بھی میدان میں ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی سیاسی کنوارا نہیں۔ سب نے دو دو چار چار سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں سے کئی کئی عقد بھگتائے ہوئے ہیں اور ایک بار پھر نہا دھو کر مجرئی سیاست کے عادی دھوکہ پسند ووٹرز کو رجھانے میں لگے پڑے ہیں۔

آئین شکن قاسم سوری قومی اسمبلی میں گند ڈالنے پر مصر

کہتے ہیں ان 20 نشستوں میں سے دس پر پہلے وہ آزاد امیدوار جیتے تھے جنھیں جولائی اگست 2018 میں ایکس ایئرلائن کے وائی پائلٹ نے اسلام آباد میں بنی گالا کے لالا کے حوالے کر کے گلے میں رنگین پٹا ڈلوایا تھا۔ تاکہ پاکستان میں بالادست طبقات کے خلاف محکوموں کی جدوجہد کسی قابلِ قبول انجام تک پہنچ سکے۔

اب یہی 10 سابق آزاد امیدوار حلالہ یافتہ حب الوطنی کے ٹکٹ پر تازہ تازہ طلاق یافتگان کے مدِ مقابل کامیاب ہو کر اس پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں جس کا خواب بقول انہی کے اقبال اور جناح نے دیکھا تھا اور اس کی تعبیر میں ایسے ایسے ہمارے نصیب میں آئے جنھیں اس خواب کے بارے میں اگر کچھ شد بد ہے بھی تو بس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے پرائمری و سیکنڈری نصاب کے توسط سے ہے۔مگر یہ پروجیکٹ انشااللہ یوں کامیاب رہے گا کہ یہ امیدوار جیتنے کے بعد جس قیادت کے ساتھ بھی دائیں سے بائیں تیسرے ہو کر گروپ فوٹو کھنچوائیں گے ان پر یا تو اوپر والے کا یا پھر اوپر والوں کا ہاتھ ہے۔

دونوں جانب زیرک اور لوہے کو لوہے سے کاٹنے کے تجربے سے مالامال قیادت ہے۔ بھلا آئین شکنوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ آئین کو کیسے کتر بیونت سے بچایا جا سکتا ہے۔ کرپٹ سے بہتر کسے ادراک ہے کہ ایمان داری کی راہ کہاں تلک جاتی ہے۔ چور سے بہتر انسدادِ چوری کے راز کس کے سینے میں ہو سکتے ہیں۔ آمریت پسند مزاج سے بہتر کون جمہوری مزاج کے نتائج کا مزاج شناس ہو سکتا ہے۔

خاندانی سیاست بازوں سے زیادہ کون بتا سکتا ہے کہ سیاسی ورکرز کا اصل مقام کیا ہے۔ ریموٹ کنٹرول پر کتھک کرنے والوں سے اچھا لائیو پرفارمنس کی اہمیت کون بیان کر سکتا ہے۔ سڑک پر ہجوم کے درمیان حیران کھڑے بچوں سے بہتر کون اس کیفیت کو تصور کر سکتا ہے کہ والدین اچانک نیوٹرل ہو جائیں تو کیا بیتتی ہے۔

آج انقلاب کی رات ہے۔ وہ انقلاب جس کا خواب لینن، منڈیلا، خمینی، اقبال اور جناح نے دیکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔سوچتے بھی کیسے؟ ان کے ہوتے ’شریف عمرانی انقلاب‘ کی اصطلاح تھی ہی کب؟ وہ تو سٹیٹ ڈویلپر تھے، لینڈ ڈویلپر ہوتے تو سوچتے۔

Back to top button