تحریک عدم اعتماد کا کھیل آخری اوور میں داخل ہونے کو
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد میںچ آخری اوور میں داخل ہو چکا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار عمران کے بچ جانے یا گھر جانے کے حوالے سے فیصلہ کن ہو گا۔وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والی اپوزیشن کے پلان کے مطابق اس مہم جوئی کی کامیابی یا ناکامی دونوں ہی اسکے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر تحریک کامیاب ہوئی تو اپوزیشن اتحاد سرخرو ہوکر اقتدار میں آ جائے گا اور اگر اسے ناکامی ہوئی تو اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے عمران خان کو مذید سمجھوتے کرنے پڑیں گے، اور یوں ان کی حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔
سنیئر اینکر پرسن ماریہ میمن اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتی ہیں کہ پچھلے ساڑھے تین سال سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری میچ تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد اب فیصلہ کن سٹیج میں داخل ہو چکا ہے۔ اپوزیشن نے کئی حربے اور کئی طریقے آزمائے، کبھی جلسے اور کبھی مارچ، کبھی استعفے کی دھمکی اور کبھی بیک ڈور سیاست۔ دوسری طرف حکومت ابھی تک اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کی کامیابی اگر کچھ کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور سے زندہ رکھا ہے۔
ن لیگ کی پوزیشن پنجاب میں مضبوط ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی مقابل ابھی تک سامنے نہیں آیا اور مولانا فضل الرحمان تک نے اپنے سیاسی نقصانات کو کم کرکے واپسی کا سفر شروع کیا ہے۔ گویا حکومت قائم تو ہے مگر اس کا استحکام مشروط ہے، اپوزیشن بھی حکومت کو ٹف ٹائم تو دے رہی ہے مگر اسکا مستقبل کا روڈ میپ واضح نہیں ہے۔ بقول ماریہ میمن ایسے میں سوال یہ ہے کہ بالآخر اس کھیل میں کس کا پلہ بھاری ثابت ہو گا؟ انکا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد تک پہنچ کر میچ پھنس چکا ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کو اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں سے منتخب کروا کے اپوزیشن نے حکومت کو ایک بڑا سرپرائز دیا تھا لیکن بعدازاں سینٹ چیئرمین کے الیکشن میں حکومت نے اپوزیشن کو سرپرائز دے دیا۔ مگر اس بار خطرہ واضح ہے۔ اتحادیوں نے بھی عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ اسی خطرے نے وزیراعظم کو ق لیگ کے گھر تک جانے پر مجبور کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس جانے کی بھی خبریں ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی بڑے عرصے سے اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کئی لیڈر ساتھ چھوڑ چکے اور کئی درون پردہ تحفظات رکھتے ہیں۔
جہانگیر ترین گروپ سامنے آچکا ہے، اور بھی کئی غیر مطمئن لیڈر حخومتی صفوں میں موجود ہیں۔ دیخھنا یہ ہے کہ کیا یہ لوگ سامنے آ کر کھڑے ہوں گے یا پھر کچھ سیاسی فائدہ لے کر اگلے الیکشن کا انتظار کریں گے؟
دوسری جانب ماریہ میمن کے خیال میں اپوزیشن کے لیے دوہرے مسائل ہیں۔ سب سے پہلے ترجیحات اور اہداف کا فرق ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں بھی تحریک عدم اعتماد لا کر پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔ ن لیگ پنجاب سے زیادہ وفاق میں دلچسپی رکھتی ہے اور ق لیگ کی حمایت کی متمنی ہے مگر وزارت اعلیٰ کا تاج اس کے سر پر نہیں رکھنا چاہتی۔
ن لیگ فوری انتخابات کی بھی خواہاں ہے اور پیپلزپارٹی ایک مخلوط حکومت چلانا چاہتی ہے۔ بظاہر تو شہباز شریف ہی وزیر اعظم کے امیدوار ہیں مگر ابھی تک اس کا واضح اعلان نہیں ہوا۔ ن لیگ کے اندر پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کے بارے میں بھی تحفظات ہیں اور ساتھ یہ بھی احساس کے ان کو مختصر دور کے لیے حکومت مل بھی جائے تو بھی وہ ڈیلیور نہیں کر سکیں گے۔
بقول ماریہ میمن انہی مسائل کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ابھی تک کبھی ہاں اور کبھی ناں کے درمیان معلق ہے۔ اتحادی بھی کبھی ہاں کرتے ہیں اور کبھی ناں۔ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی کبھی ہاں ہے اور کبھی ناں۔ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کو ہاں ہے مگر اس کے بعد اسمبلیوں کے مستقبل کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اس ضمن میں پہلی دفعہ امپائر کا بھی ذکر ابھی تک سامنے نہیں آیا اور ڈرائنگ روم کی سیاست اور جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔ ملاقاتوں کے دور پر دور چل رہے ہیں اور ہر کوئی ہر ایک سے مل رہا ہے، کچھ سامنے اور کچھ پس پردہ۔ ماریہ میمن سمجھتی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد حکومت کے لیے ایک سیریس چیلنج تو ہے مگر اصل چیلنج اگلے انتخابات ہیں۔
وزیراعظم نے بھی عوامی جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مارچ بھی در حقیقت اپنا انتخابی اثر بڑھانے اور بلاول کو بطور قومی لیڈر لانچ کرنے کی کوشش ہے۔ ن لیگ تو ہے ہی الیکشن موڈ میں اور ان کی نظریں ہیں اگلی حکومت پر۔ یہی بظاہر اپوزیشن کا اصل گیم پلان ہے۔ تاہم اس صورت حال میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں اپوزیشن کو کیا نقصان ہوگا اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے سے بھی حکومت کی سیاسی پوزیشن انتخابی نقطہ نظر سے کتنی بہتر ہو گی؟ اپوزیشن کے پلان کے مطابق ان کے لیے دونوں طرف فائدہ ہے۔
اپوزیشن کے چہروں سے لگ رہا ہے وہ ہاریں گے
پانچ سال پورے کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو جو سمجھوتے کرنے پڑیں گے، ان میں اپوزیشن کو کئی حوالوں سے ریلیف
ہی ملتا نظر آتا ہے۔ یہ ریلیف سیاسی بھی ہے اور قانونی بھی۔ اسی لیے عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی ہو کم از کم ن لیگ انتخابات سے کم پر راضی ہوتی نظر نہیں آتی۔
انتخابات کے لیے نون لیگ ایک ڈیڑھ سال انتظار کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ ہاں اگر ان کو انتخابات براستہ عدم اعتماد مل جائیں تو یہ ان کے لیے اضافی اور فوری کامیابی ہو گی۔