ڈی چوک سے بشری بی بی کے فرار کی اصل وجہ سامنے آ گئی؟
جیو نیوز سے وابستہ معروف صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ دنیا جو بھی تجزیے کرتی رہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی فائنل کال ناکام ہونے کی وجہ صرف اور صرف آنسو گیس کی شیلنگ بنی جس سے بچنے کے لیے بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے۔ لہذا جب پارٹی قیادت ہی جوتیاں اٹھا کر بھاگ نکلی تو ورکرز نے کیا خاک کھڑے رہنا تھا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں اعزاز سید کہتے ہیں کہ انقلابی قافلے کی قیادت کرنے والی بشری بی بی عرف پنکی پیرنی نے آنسو گیس سے تنگ آ کر واپس خیبر پختونخوا جانے کا فیصلہ کیا، لیکن مظاہرین بشریٰ بی بی کی گاڑی سے چمٹ گئے اور واپس نہ جانے کی منتیں کرنے لگے۔ ایسے میں بشر بی بی اپنی گاڑی سے نکل کر علی مین گنڈاپور کی گاڑی میں شفٹ ہو گئیں اور پھر دونوں مانسہرہ کی جانب فرار ہو گے۔
اعزاز سید کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی بھونچال بدھ 27؍ نومبر کی علی الصبح اچانک اس وقت اچانک ختم ہوگیا جب سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے رینجرز اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے پھینکی گئی آنسو گیس سے تنگ آ کر احتجاج ختم کرنے اور واپس خیبر پختونخوا جانے کا فیصلہ کیا۔
اس سے وقتی طور اٹھنے والا سیاسی بھونچال تو ختم ہوگیا مگر ملک میں سال2018ء سے جاری وہ تنازع ختم نہیں ہو ہایا جس کا بنیادی جزو سیاسی اداروں کی فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت کا تسلیم نہ کیا جانا ہے۔
اعزاز سید کہتے ہیں کہ 24 نومبر کو تحریک انصاف کی طرف سے خیبر پختونخوا سے شروع کیے گئے احتجاجی مارچ کا بظاہر سب سے بڑا مقصد عمران خان کو جیل سے آزاد کرانا تھا مگر پاکستان میں ایک طبقہ سوچ رہا تھا کہ اس احتجاج کی کامیابی نہ صرف عمران خان کی رہائی کا سبب بن سکتی تھی بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مرکزی کردار میں کمی بھی لا سکتی تھی۔
ہی ٹی آئی والوں کی ساری امیدوں کے پیچھے حالات کی یہ غلط تشریح موجود تھی کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بڑی طاقت کو دو بدو لڑ کر یا غیر منظم انداز میں احتجاج کے ذریعے پسپا کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا نتیجہ بھی وہی نکلا اور بشری بی بی کی جانب سے یکدم ہتھیار ڈال کر فرار ہونے نے یوتھیوں کی تمام امیدوں پر ٹھنڈا پانی پھیر دیا۔
اعزاز سید کیتے ہیں کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کم و بیش آٹھ بجے کے قریب بلیو ایریا میں پی ٹی آئی کے کارکن اس کنٹینر کو ڈی چوک کی طرف لیجانے کی کوشش کررہے تھے جس پر بشر بی بی اور علی امین جگہ جگہ خطاب کرتے آئے تھے۔ اس دوران اچانک اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی طرف سے ان پر شدید شیلنگ شروع کر دی گئی۔ کارکن کنٹینر کو چھوڑ کر کم و بیش سو گز کے فاصلے پر موجود علی امین گنڈا پور کے قافلے میں چلے گئے۔ کنٹینر ایک گھنٹے تک کسی سیکورٹی کے بغیر تھا۔ پھر اچانک کچھ نامعلوم لوگ آئے اور انہوں نے اس کنٹینر کو آگ لگا دی بظاہر یہ ایک چھوٹا سے واقعہ تھا مگر اس واقعے نے بعد میں پی ٹی آئی کی آجکل غیر اعلانیہ سربراہ بشری بی بی کے احتجاج ختم کرنے کے فیصلے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا کیونکہ بشری بی بی نے اسی کنٹینر میں محفوظ رہنا تھا۔ یہی کنٹینر انہیں پولیس اور رینجرز کی شیلنگ سے محفوظ رکھ سکتا تھا اور وہ پوری آسائش کیساتھ اسی کنٹینر کے اندر سے بیٹھ کر احتجاجیوں کو لیڈ کرتی ہوئی اسلام آباد پہنچی تھیں۔
وفاقی کابینہ کی اکثریت نےخیبر پختونخوا میں گورنرراج نافذ کرنے کی حمایت کردی
کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کنٹینر کو اگ تحریک انصاف کے کارکنان نے تب لگائی جب انہیں پتہ چلا کہ بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور ایک بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گئے ہیں۔