عمران خان دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش کا انکشاف

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے دعوی کیا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش کی گئی تھی جو ناکام ہو گئی۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے آزادی کا خواب دیکھا تو مصلحت اندیش دوستوں نے انہیں احتیاط کا مشورہ دیا لیکن شاعر مشرق اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے اور جذباتیت کے طعنے سنتے سنتے اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ ان کے مطابق علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور اسے خطبہ الٰہ آباد میں ایک تجویز کی صورت میں پیش کیا۔ قائد اعظم نے اس خواب کو حقیقت بنایا لیکن یہ دونوں صاحبان عشق و جنوں آج بھی صرف پاکستانیوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا بھر کے حریت پسندوں کیلئے محترم ہیں۔
15 اور 16 فروری کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام بین الاقوامی فلسطین کانفرنس میں بار بار علامہ اقبال اور قائد اعظم کا ذکر آتا رہا کیونکہ فلسطین کے بارے میں ان دونوں بزرگوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ کہا وہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اس کانفرنس کو صدائے فلسطین قرار دیا گیا جس میں امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے مندوبین نے شرکت کی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے تجاویز پیش کیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اس کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرار دادیں بہت اہم ہیں لیکن میرا اصل موضوع قرار دادوں سے زیادہ مسلم ممالک کے اہل اختیار کی مفاد پرستی ہے جو عقل اور حکمت کے نام پر دو ریاستی فارمولے کو مسئلہ فلسطین کا حل قرار دیتے رہے اور آج نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبھی اس دو ریاستی فارمولے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس دو ریاستی فارمولے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 29 نومبر 1947ء کو منظور کی جانے والی قرارداد سے جنم لیاتھا جسکے تحت سرزمین فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا۔ پہلا حصہ اسرائیل قرار پایا، دوسرا حصہ فلسطین قرار دیا گیا اور تیسرا حصہ یروشلم تھا جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ یروشلم کو ایک انٹرنیشنل سٹی قرار دے کر اس کی ٹرسٹی شپ اقوام متحدہ کے حوالے کی گئی۔
حامد میر کے بقول اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرار داد نمبر 181 کو بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے بطور گورنر جنرل مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے 8 دسمبر 1947 کو تب کے امریکی صدر کے نام خط میں اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے پلان کو یو این چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں اور یہودیوں دونوں کیلئے مضر کہا۔ قائد اعظم کے خیال میں تقسیم فلسطین کا یہ منصوبہ ناقابل عمل تھا۔ چند سال پہلے جب پاکستان کے کچھ طاقتور لوگوں نے بعض عرب ممالک کے دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کیا اور خود سامنے آنے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے کندھے کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے قائد اعظم کی طرف سے رب کے امریکی صدر کے نام لکھے گئے اس خط کا ذکرکیا۔ حسب توقع اسرائیل کےساتھ دوستی کے شوق میں مبتلا پاکستان کا طاقتور ترین شخص بھڑک اٹھا اور مجھے جذباتی قرار دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ جب میں نے اپنے کالم کے ذریعے اپنا موقف کھل کر بیان کیا تو میرے خلاف جوابی کالم لکھوائے گئے۔ لیکن اسی دوران عمران حکومت ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔
حامد میر کے بقول علامہ اقبال اور قائد اعظم کی سوچ آج بھی سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اسرائیلی ریاست نے اقوام متحدہ کی جس قرارداد سے جنم لیا، اسرائیل نے خود اسی قرارداد کو تسلیم نہیں کیا اور 1967 میں مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر لیا۔ اسی حرکت نے مشرق وسطیٰ میں ایک بحران پیدا کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 181 میں موجود دو ریاستی فارمولے کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے۔ جماعت اسلامی کی بین الاقوامی فلسطین کانفرنس میں امریکا سے جنوبی افریقہ تک کئی ممالک کے مندوبین نے اس دو ریاستی فارمولے کو مسترد کیا۔ اس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پلان کوبھی مسترد کیا گیا جو فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کہیں اور بھیجنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان مصر، اردن اور بحرین سمیت ان مسلم ممالک کیلئے سخت شرمندگی کا باعث بنا ہے جو اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے ہمارے سامنے اپنی عقل پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ اب یہ سب کے سب یک زبان ہو کر ٹرمپ کے غزہ پلان کو مسترد کر رہے ہیں۔
آرمی چیف کے انکار کے باوجود عمران کا خطوط پڑھنے پر اصرار کیوں ؟
حامد میر کہتے ہیں کہ فلسطین کے حوالے سے ٹرمپ کے حالیہ بیان نے فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت پر تصدیق کی نئی مہر ثبت کردی ہے۔ اب دو ریاستی فارمولے کی تدبیر ملیامیٹ ہو چکی۔ آج ٹرمپ یورپ کیخلاف بھی تجارتی جنگ شروع کرنے کے درپے ہے لہٰذا اس سے کسی کو خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔